کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 142
ہو) تو بیٹھ جائے۔ لیکن رہ گیا ایسے ہی بیٹھ کر نماز کو شروع کرنا؛ جب کہ وہ اپنے پاؤں پر چلتے ہوئے مسجد آیا تھا؛ اور خود اپنے لیے جگہ کا انتخاب کیا؛ اور پھر بیٹھ گیا۔ ایسے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے مسئلہ سے آگاہ کرنا چاہیے۔ دوسرا رکن :.... تکبیر تحریمہ کہنا۔ اس تکبیر کو تحریمہ(یا تکبیر احرام ) اس لیے کہ کہتے ہیں کہ یہ تکبیر نماز کی کنجی ہے؛ اور اسی سے نماز شروع ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نہ نماز شروع ہوسکتی ہےاور نہ ہی اس کے بغیر تحریم حاصل ہوتی ہے۔ یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ صرف اس تکبیر کے کہنے سے نمازی پر وہ کام حرام ہو جاتے ہیں جو اس سے پہلے حرام نہیں تھے پس یہ تکبیر حرام کرنے والی ہے۔ اور وہ تمام اعمال جو نماز میں ادا کئے جاتے ہیں ؛ وہ اس تکبیر کی تفصیل ہیں ۔ جو کہ نماز کے لیے تحریم ہوتی ہے۔ پس انسان رکوع اور سجدہ کرتا ہے؛ خشوع و خضوع اور تذلل اختیار کرتاہے؛دعا اور مناجات اور تسبیح بیان کرتا ہے؛ اوردیگر اعمال بجا لاتا ہے؛ یہ سب اس اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تکبیر کی خاطر کرتا ہے۔  پس جو کوئی اس تکبیر کے بغیر نماز میں داخل ہوتا ہے؛ یا اس کے ان الفاظ کے علاوہ کوئی دوسرے الفاظ اختیار کرتا ہے؛ جیسے :’’ اللہ اعظم ‘‘ یا ’’ اللہ اجل ‘‘ ؛ یا اس طرح کا کوئی دوسرا لفظ ؛ تو اس کی نماز درست نہیں ہوتی۔کیونکہ اس نے نماز کی تحریم کے الفاظ تکبیر کی شکل میں ادا نہیں کئے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے تمام تر الفاظ کو چھوڑ کر ان الفاظ کو متعین کیا ہے۔ اصلاح نماز والی حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو۔‘‘ (البخاری 757 مسلم 398) تیسرا رکن ....: سوم: سورت فاتحہ پڑھنا۔یہ قرآن کی سب سے عظیم ترین سورت ہے۔ اس کی تلاوت کرنا ہر نماز ؛ بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت کا رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں سترہ مرتبہ اس سورت کا پڑھنا اپنے بندوں پر فرض کیا ہے جو اس سورت کی عظمت کی دلیل ہے۔ اور اس کی شان یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو ’’نماز‘‘ کا نام دیا ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (( قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللّٰهُ تَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللّٰهُ تَعَالَی أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ مَالِکِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ قَالَ ہَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ ہَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ )) (مسلم 137) ’’ سورت فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دی ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے جب بندہ کہتا ہے:﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، ﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :