کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 136
اس دین میں داخلہ شہادتین کے اقرار اور ان کے معانی کے فہم؛اور ان چیزوں کے پختہ عقیدہ سے ہوتا ہے جن پر شہادتین دلالت کرتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی خالص توحید اور مرسلین علیہم السلام کی سچی اتباع ۔
شرط دوم:.... عقل :یہ پاگل پن کی الٹ ہے۔ پاگل سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ (اس کی نماز معتبر نہیں ہوتی)۔ حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تین شخصوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ،....اور دیوانہ سے ؛حتی کہ اسے عقل آ جائے ۔‘‘ (أحمد 24694 ؛ سنن ابی داؤد 4398 ؛ سنن الترمذی 1423: صحيح)
شرط سوم:.... تمیز[سمجھ]اتنے چھوٹے بچے کی نماز درست نہیں ہے جو ابھی تک سمجھداری [سات سال ]کی عمر کو نہ پہنچا ہو۔ اسی لیے حدیث شریف میں آتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو ، اور ان کے سونے کے بستر الگ الگ کر دو ۔‘‘
[مسند أحمد 6756 ؛ أبو داؤد 495 ؛ صححه الألباني في الإرواء 247]
جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے؛ اوروہ سمجھ دار ہو جائے؛ اعمال کوسمجھ اور اداکرسکتا ہو؛ تو اس کی رہنمائی کی جائے ؛ اوریہ امور اس کے سامنے بیان کئے جائیں ۔ یہ وقت ہوتا ہے اسے نماز کا حکم دینے کا۔
شرط چہارم : طہارت (حدث کا خاتمہ ):حدث (ناپاکی)چھوٹی اوربڑی ہر قسم کی ناپاکی کو شامل ہے۔حدث اکبر کا خاتمہ غسل سے ہوتا ہے جیسے جنابت اور حیض سے غسل کرنا۔اور حدث اصغر کے لیے وضوء کرنا پڑتا ہے۔حدث کا خاتمہ نماز کی شرائط میں سے ایک شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
(( لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ صَلَاةً إِلَّا بِطُہُورٍ ))(مسلم 224)
’’اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں فرماتے۔‘‘
پس جو کوئی اس حالت میں نماز پڑھ لے کہ وہ ناپاک ہو؛ بھلے ناپاکی چھوٹی ہو یا بڑی۔ تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔
شرط پنجم :.... نجاست کا ازالہ : یعنی نمازکی جگہ؛ اور لباس اور بدن کو گندگی سے مکمل طور پر پاک رکھے؛ فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ ، ﴾ [٧٤:٤]’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔‘‘
طہارت میں اصل پانی کا استعمال ہے۔ اگر نجاست زمین پر لگی ہو تو اس پر پانی بہا کر پاک کیا جائے[1] اور اگر کسی
[1] جو کوئی نماز پڑھنے کے بعد دیکھے کہ اس پر گندگی لگی ہوئی ہے؛ اور اسے یہ پتہ نہ چل رہا ہو کہ یہ گندگی کب لگی ہے؛ تو اس کی نماز درست ہوگی۔ ایسے ہی اگر اسے پتہ چل بھی جائے کہ یہ گندگی نماز سے پہلے لگی ہے؛ اور وہ اسے ختم کرنا [پاک کرنا]بھول گیا تھا؛ تو راجح قول کے مطابق صحیح بات یہی ہے کہ اس کی نماز درست ہوگی۔ اور اگر اسے نماز کے دوران گندگی کا پتہ چلے؛ اور یہ ممکن ہو کہ عمل کثیر کے بغیر اسے ختم کیا جاسکتا ہے؛ جیسے جوتے کا اتار دینا؛یا اس طرح کا کوئی کام؛ تو وہ گندگی کو ختم کردے؛ اور نماز کو جاری رکھے۔ اور اگر اس گندگی کو ختم نہ کرسکے تو اس کی نماز باطل ہوگی[اسے دوبارہ پڑھنا ہوگا]۔