کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 13
پہلا سبق سورۂ فاتحہ اور چھوٹی سورتیں سورہ فاتحہ اور چھوٹی سورتیں یعنی سورہ زلزال تا سورہ الناس میں سے جس قدر سورتیں ہو سکیں انہیں سمجھانا، پڑھانا اور پڑھائی درست کرانا، حفظ کرانا نیز ان باتوں کی تشریح کرنا جن کا سمجھنا ضروری ہو۔ شرح:  یہ اس کتاب ’’ الدروس المہمة لعامة الأمة ‘‘ کا پہلا درس ہے جو کہ سورہ فاتحہ اور چھوٹی سورتوں کی تعلیم کے بارے میں ہے۔ شیخ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ سورہ زلزال سے لے کر و الناس تک کی تعلیم عوام کو دی جائے؛ ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے تاکہ وہ اپنی فرض اور نفل نماز اور تہجد وغیرہ ادا کرسکیں ۔حتی کہ اگر کوئی انسان تہجد میں ایک ہی سورت کو بار بار پڑھنا چاہے تو بھی ٹھیک ہے۔ حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سحری کے وقت سے کھڑے ﴿ قل ہو اللّٰہ أحد‏﴾ پڑھتے رہے ۔ ان کے سوا اور کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے تذکرہ اس طرح کیا گویا وہ اس کو بہت کم سمجھ رہا ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!بےشک یہ تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘[بخاری 5014] تعلیم میں یہ طریقہ بہت سارے عوام الناس کے لیے علم حاصل کرنے اور سورتیں یاد کرنے میں حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔ بیشک جب یہ کہا جائے کہ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے؛ اس کے لیے اس قدر سورتیں کافی ہیں کہ زلزال سے لے کر والناس تک کی تعلیم حاصل کرلی جائے۔ تو انسان میں یہ شعور بیدار ہوتا ہے کہ اسے اپنی عبادت بجا لانے کے لیے جس قدر ضرورت ہے وہ تو بہت آسان ہے؛ تو پھرانسان ان کی تعلیم حاصل کرنے کا بڑا اہتمام کرتا ہے؛ تاکہ وہ ان سورتوں کوحفظ کرسکے اور ان کے معانی اور مدلولات سمجھ سکے اور ان کی تلاوت درست کرسکے۔ پس اس کے لیے اگر مساجد میں عوام الناس کی تعلیم کے لیے حلقے قائم کئے جائیں جن میں صرف ان سورتوں کی تعلیم پر اکتفاء کیا جائے؛ اور جو کوئی ان کی تعلیم مکمل کرلے؛ اسے کہا جائے کہ آپ نے اپنی ضرورت کو مکمل کرلیا۔ اب اگر اس سے آگے مزید کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مکمل حفظ قرآن کریم کے حلقات میں تشریف لے جائیں ۔  بعض لوگ تو ایک ماہ میں ان دروس میں پختگی اور مہارت حاصل کرلیتے ہیں ۔اور بعض لوگ دو ماہ میں ۔ یہ انسان کی اپنی قدرت و وسعت اور حافظہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔