کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 117
ہو، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ، ۭ ﴾’’ بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘یہ ان لوگوں کے حق میں ہے جو توبہ کرلیں ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰهِ ﴾ ’’ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔‘‘یعنی توبہ کرو؛ پس جو کوئی توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ شرک اور دیگر گناہوں سے اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ۔جیسا کہ سورہ نساء کی آیت میں ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النسآء: ۴۸) ’’بے شک اللہ نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس سے کم گناہ، جسے چاہے گا۔‘‘ یہ ان لوگوں کے حق میں ہے جو شرک پر ہی مر جائیں ؛ جو کوئی شرک کرتے ہوئے مر جائے تو اس کے حق میں مطلق طور پر مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔مشرک پر جنت کے حرام ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ فرمان گرامی ہے: ﴿ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ﴾ (المائدۃ: ۷۲) ’’بے شک جو بھی اللہ کے ساتھ شریک بنائے ؛تو یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے؛ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔‘‘ یعنی جو لوگ شرک کرتے ہوئے ہی مر جائیں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یعنی ایساحمایتی نہ ہوگا جو ان کی سفارش کرے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکے۔ یہاں پر ظلم سے مراد شرک ہے ؛ جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے:   ﴿ ۭ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ، ﴾[لقمان 13] ’’ بیشک شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ﴾ (البقرة 254) ﴿’’اور بیشک کافر ہی ظالم ہیں ۔‘‘ ٭٭٭ پکار میں شرک شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اور اس شرک کی اقسام میں سے ’’مُردوں اور بتوں کو پکارنا‘‘ بھی ہے۔اس لیے کہ دعا اور پکار بھی عبادت ہی ہے۔بلکہ سب سے بڑی اور اہم ترین عبادت ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ دعا عبادت ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: