کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 116
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی عمل کے ساتھ شرک اکبر کی ملاوٹ ہو جاتی ہے؛ -خواہ یہ عمل تھوڑا ہو یا زیادہ- وہ تمام کا تمام عمل تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ اور اس کی کوئی بھی نیکی قبول نہیں کی جاتی۔ امور مفسدہ میں اس باب سے بہ نظر اعتبار استفادہ کیا جاسکتا ہے۔  آپ دیکھیں گے اس باب میں بہت سے لوگوں کے مابین اتفاق پایا جاتا ہے۔ اور اس میں بعض امور کے آپس میں ملے ہوئے ہونے پر اس کا فساد مرتب ہوتا ہے کہ وہاں سے یہ فساد تمام چیزوں میں پھیل جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ علوم صرف اس پہلو کی نگہداشت پر ایسے قائم ہیں جیسے کھانے پینے اور غذاؤں کی احتیاط و حفاظت شامل ہوتی ہے۔ مثلاً اگر فلاں چیز فلاں چیز کے ساتھ ملا دی جائے تو اس میں خرابی پیدا کردیتی ہے۔اور اس خرابی سے بچنے کے لیے کھانے پینے کی حفاظت کے مکمل انتظامات کئے جاتے ہیں ۔پھر کون سی خرابی ایسی ہوگی جو شرک کی خرابی سے بڑی ہو؟کیونکہ اس سے تو تمام تر اعمال تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ۔ اور انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے۔ اور - العیاذ باللہ - کہ انسان کھلم کھلا خسارے اور گھاٹے کا شکارہو جائے؛ بھلے وہ نمازیں پڑھتا ہو؛ روزے رکھتا ہو؛ اور صدقہ و خیرات کرتا ہو؛ مگر اس کے اعمال میں شرک کی ملاوٹ ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کیا جاتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  ﴿ وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَبِرَسُوْلِہٖ ﴾ [التوبة 54] ’’اوران کے صدقات کی قبولیت میں رکاوٹ صرف یہ تھی کہ وہ اللہ اور رسول سے منکر ہوگئے تھے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  ﴿ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ، ۡوَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ، ﴾ [المائدة 5] ’’اورجو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا اسکے اعمال تباہ ہوگئے اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا ۔‘‘  ٭٭٭ شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اور بیشک جو کوئی اسی حالت میں مر گیا ‘‘ یعنی شرک اکبر پر ؛ ’’ پس اس کی مغفرت ہر گز نہ ہوگی ؛ اور اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ اس کی مغفرت نہ ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے:  ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النسآء: ۴۸) ’’بے شک اللہ نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا اس سے کم گناہ ؛ جسے چاہے گا۔‘‘ یہ ان لوگوں کے حق میں ہے جو اسی[شرک کی]حالت میں مر جائیں ۔اس آیت میں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان گرامی کے مابین کوئی تعارض یاٹکراؤ نہیں ہے: ﴿ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ ، ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ، ۭ ﴾ [الزمر 53] ’’آپ فرمادیں : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے؛ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ