کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 108
پاکیزہ چیزوں کے کھانے پینے میں بھی احتیاط کرتا ہے تاکہ ان سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ پس اپنے نفس ةکو گناہوں کے انجام اور نتیجہ کے خوف سے اس دن کے لیے بچاکر رکھے جب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ تو پھر سب سے بڑے گناہ سے کیسے نہیں بچا جاسکتا جوکہ شرک اکبر ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی شرک کو پہچان لیتا ہے؛ اور اس کے دردناک انجام کی معرفت حاصل کرلیتا ہے وہ اپنی ذات کے متعلق وہ بہت زیادہ خوفزدہ رہتا ہے۔ بس ایسے میں قرآن کریم میں دو جگہ پر یہ فرمان پڑھ لینا ہی کافی ہوگا: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النسآء: ۴۸) ’’بے شک اللہ نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا اس سے کم گناہ، جسے چاہے گا۔‘‘ یہ ان لوگوں کے حق میں ہے میں جو شرک پر ہی مر جائیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی شرک کرتے ہوئے مر گیا اس کے متعلق اب مطلق طور پر رحمت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ اور نہ ہی مغفرت میں اس کا کوئی حصہ ہے۔ اس کے لیے ابد الآباد جہنم کے عذاب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔اور یہ عذاب اسی لمحہ شروع ہو جاتا ہے جب اس کی روح اس کے جسم کو چھوڑ جاتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:  (( مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللّٰهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ ))(بخاری 4497) ’’ جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے۔‘‘ جہنم میں یہ داخلہ اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب جسم سے روح جدا ہو جاتی ہے؛ اسی لیے علماء کرام فرماتے ہیں : ’’بیشک جہنم کی آگ مشرک کے بہت قریب ہوتی ہے؛ مشرک اور جہنم کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا ہے کہ اس کی روح بدن سے جدا ہو جائے؛ اورجہنم کی آگ میں داخل ہو جائے۔ سب سے پہلے اس کا جہنم کی آگ سے واسطہ قبر میں پڑتا ہے۔ تو قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:  ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْہَا غُدُوًّا وَّعَشِيًّا ، ﴾[٤٠:٤٦] ’’آ گ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں ۔‘‘ (یعنی صبح اور شام کے اوقات میں )۔  جو لوک کفر و شرک پر مرجاتے ہیں ؛ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمادیا ہے کہ ان کے لیے رحمت اور مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:  ﴿وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ ، لَا يُقْضٰى عَلَيْہِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ، ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ ، وَہُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْہَا ، رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ، ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْہِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيْرُ ، ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا