کتاب: الدروس المہمۃ کی شرح کا اردو ترجمہ دروس ابن باز - صفحہ 107
﴿ تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ، اِذْ نُسَوِّيْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، ﴾ [٢٦:٩٨] ’’ اللہ کی قسم !بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے، جبکہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘ یہی تو شرک ہی کہ غیر اللہ کو اللہ کے برابر ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد گرامی ہے:  ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِّٰ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ ، ۭ ﴾[٢:١٦٥] ’’ اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں ایسے محبوب رکھتے ہیں جیسے اللہ سے محبت ہو۔‘‘  یعنی انہیں محبت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے تھے۔  شرک برابری اور ہمسری کو کہتے ہیں ؛ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو ہمسر اور شریک بنانا؛فرمان الٰہی ہے:  ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ، ﴾ [٢:٢٢] ’’ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہ بناؤ جن کے لیے تم عبادت بجالاؤ اور ان کو وہ حقوق دو جو صرف اللہ کے لیے خاص ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ غیر کو اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنا۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ ؛ اس کے مساوی اور مماثل قرار دینا۔جیسا کہ کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:  ﴿ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ يَعْدِلُوْنَ ، ﴾ [٦:١] ’’پھر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ یعنی غیر کو اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھتے ہیں ؛ اور اس غیر کو اللہ کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں ۔ یہی وہ شرک اکبر ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔  مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان پر شرک سے بہت خوفزدہ اور ڈرتا رہے؛اتنا زیادہ کہ اتنا خوف کسی دوسری چیز کا نہ ہو۔ اوریہ خوف اس کے لیے احتیاط اختیار کرنے اور بچاؤ کا سامان کرنے کا موجب ہو جائے۔جیسا کہ ان لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ پس وہ اپنے اس خوف کی وجہ سے بچ کر رہنے کی پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں ۔کیا آپ بعض ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اپنی ذات کے لیے بچاؤ کی صورت اختیار کرتے ہیں ؛ اور پھر وہ کھانے پینے میں اور کئی دوسری مباح چیزوں میں جو کہ حرام نہیں بھی ہوتیں ؛ انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں ؛ جیسے موٹاپے سے نجات کے لیے؛ اور دیگر امراض؛ سستی اور گرانی سے نجات کے لیے۔ اس احتیاط اور بچاؤ کی تدابیر میں اصل ان امور کے انجام کا خوف ہوتا ہے۔ تو پھر کیا یہ بات مناسب نہیں کہ ہم ان چیزوں کے بارے میں بہت زیادہ محتاط رہیں جو ہماری زندگی میں اصل مقصود ہے؛ اوروہ ہے شرک سے بچاؤ۔اور اس میں واقع ہونے کے خطرہ سے احتیاط۔اور ایسے دقیق اسباب اختیار کرنا جو اللہ کے حکم سے بندے کے لیے ان امور میں واقع ہونے سے بچاؤ کا سبب بن جائیں ۔ اورانسان کا یہ حال ہونا چاہیے کہ وہ انتہائی باریک بینی اور دقت کے ساتھ اس کا اہتمام کرے ؛ جیسے وہ انسان جو بعض