کتاب: دنیوی مصائب و مشکلات حقیقت ، اسباب ، ثمرات - صفحہ 9
((عَجَباً لِلْمُوْمِنِ لَایَقْضِی اللّٰہُ لَہ‘ شَیْئاً اِلَّا کَانَ خَیْراً لَہ‘ (مسنداحمد وابویعلی) وَلَیْسَ ذَالِکَ لِأَحَدٍاِلَّا لِلْمُؤْمِنِ)) [1] ’’مؤمن کا معاملہ بھی تعجب انگیز ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں فرماتا،مگر اسکی بھلائی کیلئے؛اور یہ اعزاز سوائے مؤمن کے کسی اور کوحاصل نہیں ہے۔‘‘ اِس حکمت ِ اِلٰہی کو پوری طرح سمجھناکہ ان ساری مصیبتوں کے پیچھے کیارازہے ؟یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے،کیونکہ ہمارا علم فقط ظاہری معاملات کی حد تک محدود ہے۔صرف اللہ ہی کو علم ہے کہ آخر میں حالات کیسے بدلیں گے؟ اور بندے کو اس سیکیسے فائدہ پہنچے گا؟پس، مصیبتیں جو بظاہربری لگتی ہیں ،ہوسکتا ہے کہ آگے چل کربہت فائدہ مندہوں ۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے: {وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَ ھُوْاشَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْاشَیْئًاوَّھُوَشَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ} (سورۃ البقرہ:۲۱۶) ’’ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو،حقیقی علم اللہ ہی کو ہے،تم محض بے خبر ہو۔‘‘ اُوپر بیان کی گئی آیت اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہادکرنے کا صاف حکم دے رہی
[1] مسلم ۴؍۲۲۹۵،حدیث:۲۹۹۹،مسنداحمد۴؍۳۳۲،۳۳۳،۶؍۱۵،۱۶،دارمی،ابویعلی، الصحیحہ ۱؍۲۲۸،حدیث:۱۴۷،۱۴۸،صحیح الجامع ۲؍۲۳۷،حدیث:۳۹۸۰