کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 9
ہوگا اور تیری کیسی بنے گی۔تجھے راحت ملے گی یا تکلیف تیرا شمار نیکوں میں ہوگا یا بدوں میں۔تجھ سے خدا راضی ہوگا یا ناراض۔سفر تو پھر آخر سفر ہے تکالیف و مصائب کا گھر ہے۔الم و غم سے پر ہے۔اس کا ایک ایک قدم پرخطر پر حدز ہے۔اس لیے دنیا میں تجھ کو جو بھی تکلیف پہنچے اس پر کبیدہ خاطر و آرزدہ دل ہرگز نہ ہو۔سفر میں تکلیف کوئی انوکھی بات نہیں۔راہ کی صعوبت کوئی اچنبہ کی چیز نہیں لیکن اے دنیا کے مسافر جہاں تیرا سفر ختم ہوگا اور تو دنیا کی اس اضطرابی اور بے چین زندگی سے نکل کر اپنے پروردگار کے پاس دم لے گا اور تجھ کو قرار ابدی نصیب ہوگا وہاں کے لیے تو نے کچھ اسباب راحت اور سامان مسرت بھی اپنے ساتھ لیا یا نہیں کیونکہ پروردگار کے پاس پہنچتے ہی انسانوں کے دو طبقے ہوجائیں گے ایک وہ جن کا حساب آسان ہوگا عتاب و سرزنش سے اُن کا دامن پاک ہوگا راحت و مسرت انھیں کے حق کی ہوگی دوسرے وہ جن کے اعمال کا محاسبہ سخت ہوگا۔بات بات پر پکڑ اور گرفت ہوگی تکلیف و مصیبت انھیں کے نصیب کی ہوگی۔اے دنیا کے مسافر نہ معلوم تیرا شمار کن میں ہو اُن میں ہو یا ان میں ہو۔
لہٰذا اے عقلمند انسان تو یہیں سے اپنے آگے کی آخری منزل کے لیے سامان راحت لے چل ورنہ ہمیشہ پچھتائے گا اور تیرے لیے کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ہر ایک پر تو نظر اُمید لگائے گا۔مگر تیرے کوئی کام نہ آئے گا اور تیرا کوئی معاون و مددگار نہ ہوگا۔تیرے اپنے بھی پرائے ہوجائیں گے اور تجھ سے نظر پھیرلیں گے۔آہ یہ وہ بے کسی دن کا ہوگا جو کسی نے اس سے پہلے نہ دیکھا ہوگا۔ہر ایک کی نظر خود اپنے پر ہوگی دوسرے سے ہٹی ہوگی۔بس اپنی پڑی ہوگی دوسرے سے نفرت ہوگی۔عزیز عزیز کا ساتھی نہ ہوگا دوست دوست کا یار نہ ہوگا۔یاری و ہمدردی تو کجا اُلٹا بیزار ہوگا اور نزدیکی سے بھاگے گا۔بھائی بھائی کو دغا دے گا جس پر دنیا میں وہ اپنا خون چھڑکتا تھا اور جس کی محبت و الفت کا ہر دم دم بھرتا تھا بلکہ اُسی کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔اولاد ماں باپ سے پھر جائے گی۔اپنی ہوکر پرائی ہوجائے گی۔سگی ہو کر غیر بن جائے گی۔گو دنیا میں ان پر اپنی جان نثار کرتی تھی مگر اس دن انھیں کی صحبت سے جان