کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 8
آخری سانس لو گے تو اپنے گھر والوں کو الوداع کہتے ہو گے جب تم آخری سانس لو گے تو تم اپنی قبر میں رکھے جارہے ہو گے۔‘‘
گویا ہماری زندگی کیا ہے انھیں پیہم سانسوں کا ایک سلسلہ ہے جس کی آخری کڑی ہماری موت کا سانس ہے۔ملاحظہ کیجیے شیخ سعدیؒ نے انسان کو جب خالق کی شکر گزاری کے لیے ابھارا اور بیدار کیا تو یہ نہیں کہا کہ اے انسان ذرا سوچ کہ ہر گھڑی اور ہر دن تیرے خالق کے تجھ پر کس قدر احسانات و انعامات ہیں جن کا شکر تجھ پر لازم آتا ہے بلکہ زندگی کو انھیں سانسوں پر تقسیم کرکے ہر سانس پر دو احسانات الٰہی بتائے اور فرمایا ’’ہر نفسیکہ فرد میرود ممد حیات امت وچون بر می آید مفرح ذات پس در ہر نفسے دو نعمت موجود است و در ہر نعمتے شکری واجب۔‘‘ یعنی ہر سانس پر اللہ عزوجل کے انسان پر دو انعامات ہیں جب سانس اندر جاتا ہے ایک سانس کی مقدار زندگی بڑھ جاتی ہے گویا انسان اپنی زندگی کا ایک قدم اور آگے اُٹھالیتا ہے اور سفر دنیا کا ایک چھوٹا سا مرحلہ طے کرلیتا ہے اور زندگی چونکہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اس لیے اس نعمت پر انسان پر شکر گزاری کی ذمہ داری آتی ہے اسی طرح جب سانس باہر آتا ہے تو طبیعت کو فرحت و بحالی نصیب ہوتی ہے۔مزاج میں بشاشت و شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور اس پر بھی شکر واجب ہوتا ہے۔یوں ہر سانس پر دو شکر واجب ہوتے ہیں۔لیجیے حضرت شیخؒ نے ایک سانس کو بھی دو حصوں پر تقسیم کرکے غافل انسان کو کیا خوب بیدار کیا لمحہ لمحہ کی غفلت سے بچایا پل پل کی ناشکری سے چھڑایا اور پورا پورا یاد مولا میں لگایا۔گویا سفر دنیا کو کارآمد بنایا منزل آخرت کو سدھارا۔
منزل مقصود کی فکر:
اے انسانو اب جب تو اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے دنیا کا یہ سارا صعوبت و کلفت سے بھرا راستہ طے کر رہا ہے اور تو اس قدر تیز رفتار ہے کہ ایک دن میں اپنے سانسوں کے ہزاروں قدم اُٹھا جاتا ہے اور ایک لمحہ کے لیے تجھ کو قرار نہیں تو تو نے اپنے اس سارے سفر دنیا میں یہ بھی کبھی سوچا کہ اپنے پروردگار کے پاس حاضری کے وقت تیرے ساتھ کیا پیش