کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 7
تیرے خالق کا انداز اس سے جدا اور نرالا ہے اُس نے انسان کی زندگی کو نہ گھڑیوں اور دنوں سے ناپا ہے نہ مہینوں اور سالوں سے جانچا ہے بلکہ سانسوں سے اس کے نشانات سفر قائم کیے ہیں اور یوں تیز رفتاری بتا کر انسان کی آنکھیں کھولی ہیں انسان کہہ سکتا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی کا ایک دن گزارا مگر اُس کا خالق کہے گا کہ اُس نے دن میں اپنی زندگی کے اتنے ہزار سانس لے ڈالے۔چنانچہ ارشاد عالی ہے:
{اِنَّمَا نَعُدُّلَہُمْ عَدًّا}(مریم:۸۴)
’’کہ ہم ان کے سانس گن رہے ہیں۔‘‘
انسان کے سفر کا خاتمہ بھی سانس ہی سے ہوگا۔اس کو دنیا سے جانے میں نہ دن لگیں گے نہ مہینے۔بلکہ جس لمحہ میں سانس رکے گا اسی لمحہ میں یہ دوسرے عالم میں قدم رکھے گا۔اشارہ میں دنیا کی سرحد سے پار ہوگا۔سفر چھوڑ کر مقیم ہوگا۔ابھی یہاں تھا اور ابھی وہاں ہوگا۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((اَلْمُبَادَرَۃُ لِلْبَادِرَۃ اَلْمُبَادَرَۃُ فَاِنَّمَا ہِیَ الْأَ نْفَاسُ لَوْ جَسَتْ اِنْقَطَعَتْ عَنْکُمْ اَعْمَالُکُمْ الَّتِیْ تَتَقَرَّبُوْنَ بِہَا اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ رَحِمَ اللّٰہُ امْرَائً نَظَرَ اِلٰی نَفْسِہِ وَبَکٰی عَلٰی عَدَدِ ذُنُوْبِہٖ۔))
’’جلدی کرو جلدی کرو تمہاری زندگی کیا ہے یہی سانس ہیں کہ اگر یہ سانس رک جائیں تو تمہارے ان عملوں کا سلسلہ ٹوٹ جائے جن سے تم اللہ عزوجل سے نزدیکی حاصل کر رہے ہو۔اللہ رحم فرمائے اس آدمی پر جس نے اپنا خود کا جائزہ لیا اور اپنے گناہوں پر چار آنسو گرائے۔‘‘
پھر آپ یہ آیت قرآنی تلاوت کرتے {اِنَّمَا نَعُدُّلَہُمْ عَدًّا} اور فرماتے:
((آخِرُ الَعَدَدِ خُرُوْجُ نَفْسِکَ آخِرُ الْعَدَدِ فِرَاقُ اَہْلِکَ آخِرُ الْعَدَدِ دُخُوْلُکَ فِیْ قَبْرِکَ۔))
’’یعنی جب تم آخری سانس لو گے تو تمہاری روح اس تن کو چھوڑتی ہوگی جب تم