کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 6
’’کہ اے انسان تو دنیا کی راہ میں محنت و مشقت سے گزرتا ہوا اپنے پروردگار کی جانب سے چلا جارہا ہے۔‘‘ پس تو اس سے جاملے گا یعنی تو نہ ایک جگہ قائم ہے نہ پیچھے ہٹ رہا ہے بلکہ تیرا ہر قدم مسافر کی طرح آگے ہی آگے اپنے رب کی طرف تیزی سے اُٹھتا جارہا ہے آخر ایک روز تو اپنے پروردگار کے روبرو پہنچ کر اس سے جاملے گا۔بزرگوں نے زندگی کو اس تیز رو دریا سے تشبیہ دی ہے جو جوش و خروش سے بہتا ہوا پہاڑوں اور ٹیلوں سے ٹکراتا ہوا ہر بلندی و پستی سے گزرتا ہوا غرض تلاطم کا ایک طوفان برپا کرتا ہوا سمندر کی طرف تیزی سے بڑھتا جاتا ہے اور اس کو اپنی پوری راہ میں سکون و قرار نہیں۔البتہ جب یہ اپنا طوفانی سفر طے کرکے سمندر کے پرسکون ساحل میں جاملتا ہے تو اپنا اضطراب بھول کر سمندر کی گود میں جاسوتا ہے اور مکمل سکون سے ہمکنار ہوتا ہے۔بس یہی حال انسان کی دنیاوی زندگی کا ہے کہ سفر دنیا میں یہ ایک تلاطم میں ہے نشیب و فراز میں ہے۔کبھی صحت و تندرستی کے دور سے گزر رہی ہے تو کبھی بیماری کے دن کاٹ رہی ہے۔کبھی امیری کا زمانہ ہے تو کبھی محتاجگی کے تلخ دن اس کے نصیب میں ہیں۔بس ابدی قرارگاہ آخرت میں پہنچ کر ہی اس کو قرار اور سکون نصیب ہوتا ہے اور اس لیے آخرت کو ’’دارالقرار‘‘ کہا ہے۔ سفر دنیا کی منزلیں: اے دنیا کے مسافر یہ تیرا بچپن یہ تیری جوانی اور یہ تیرا بڑھاپا تیرے راستے کی منزلیں اور راہ کی قرار گاہیں ہیں جن پر کچھ مدت رہتا ہوا تو آگے ہی آگے چل رہا ہے اور اپنے پروردگار سے روز بروز قریب تر ہوتا جارہا ہے اسی طرح یہ رات و دن جو تجھ پر روز آرہے اور جارہے ہیں یہ مہینے اور سال جن کو تو اپنی زندگی میں ختم کرتا جارہا ہے یہ تیری راہ کے چھوٹے بڑے نشانات و علامات ہیں جن پر سے تو گزر رہا ہے اور ایک ایک کرکے سب کو چھوڑ رہا ہے۔اُن سے تو پتہ لگاتا ہے کہ دنیا میں تو اپنا کس قدر راستہ طے کرچکا اور آخرت کی طرف کتنا بڑھ چکا بلکہ یہ خود تیرا لگایا ہوا اندازہ ہے جس سے تو اپنے سفر دنیا کو ناپتا اور جانچتا ہے