کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 58
اے اللہ سخی کی دولت بڑھا کنجوس کا پیسہ مٹا۔سخی دوسروں کو دیتا جائے تو اس کو دیتا جا۔کنجوس پیسہ کو روکتا جائے اور تو اس کو مٹاتا جا۔‘‘
پھر دنیا مالدار سے پیسہ اس کا نفع دکھا کر لیتی ہے اور اللہ اس سے پیسہ اُسے سمجھا کر لیتا ہے یہ حقیقت ہے کہ جب مالدار پیسہ دینے کے لیے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو یہ سوچ کر یک بیک رکتا ہے کہ یہ میری اپنی کمائی ہے یہ دوسرے کو مفت کیوں دوں تو دنیا کہتی ہے کہ یہ بے شک تیری کمائی ہے مگر نفع کی خاطر دے اور زیادہ لے اور اللہ تعالیٰ داد و دہش کے لیے جب قرآن کریم میں حکم فرماتا ہے تو اکثر و بیشتر فرماتا ہے:{مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ } یا {مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہِ } اوّل پارہ میں فرماتا ہے {وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ} کہ قرآن کریم سے ہدایت پانے والے ہماری دی ہوئی روزی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایک جگہ ارشاد ہوا:{اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہِ } کہ اللہ نے تم کو جو کچھ روزی دی اس میں سے تم بھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرو اور اس طرح گویا مالدار سے فرماتے ہیں کہ دنیا تجھ سے کہتی ہے کہ اپنی کمائی میں سے کچھ دو اور زیادہ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری دی ہوئی روزی میں سے کچھ دو اور نفع لو تم اپنے پاس سے کیا دو گے تم نہ کچھ لے سکتے ہو نہ دے سکتے ہو۔ہمیں نے روزی دی اور ہمیں اس میں سے کچھ تمہارے لیے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں کہ آخرت میں تمہارے کام آئے تو اب تم کو دنیا کیوں کھٹکتا ہے اور دیتے دیتے ہاتھ کیوں رکتا ہے۔تمہارا بخل اپنی کمائی میں ہوسکتا ہے لیکن دوسرے کی دی بہوئی روزی میں بخل کیا معنی رکھتا ہے۔واللہ کیا خوب بات نکالی اور کنجوس کے دل میں سے کنجوسی کی جڑ کیا خوب کاٹی۔
ززززز