کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 57
اور اس کی وجہ بتادی کہ اللہ کے پاس داد و دہش کے خزانے بہت پھیلے ہوئے ہیں ان میں کمی کا کھٹکا نہیں بھول چوک کا اندیشہ نہیں کیونکہ حساب لگانے میں وہ اپنے علم سے کام لیتا ہے اور نیت کو پرکھ پرکھ کر اجر دیتا جاتا ہے۔بھلا بتائے کوئی مالدار کو خدارا سمجھائیے کہ اگر تو نفع کے پیچھے مرتا ہے تو مال پر اتنا نفع بھی کوئی دیتا ہے۔دراصل دنیا کے مہاجن لینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور ہمارا اللہ دینے کے بہانے تلاش کرتا ہے۔ہم سے دلواتا ہے اور آپ دیتا نہیں بلکہ لٹاتا ہے۔پھر بھی اگر کوئی عقل کا مارا اللہ کی راہ میں دینے سے بچے اور بینکوں میں لاکھوں بھرے تو یوں سمجھو کہ اس نے پیسہ کمانے میں عقل اور ایمان کی بازی لگائی ہے۔پیسہ کمایا ہے اور دین کھویا ہے۔
یہ تھا آخرت کے نفع کا بیان لیکن اگر مالدار پر دولت کا نشہ ہے اور نہیں ہے اس کو آخرت کا اندیشہ اور دنیا کے نفع پر وہ مرتا ہے اور مرنے سے پہلے کی ہر چیز پر وہ دم دیتا ہے تو آگے ہم اس کو دنیا میں ہی نفع دکھاتے ہیں مگر اس کی آنکھ سے آنکھ بھی وہ جو روشن ہو ایمان سے۔اسے پیسہ کے دھنی مال کے غنی دنیا کے راہی آخرت کے باشی تو نے سنا کہ تیرا خدا خیرات دینے کے لیے کہتا ہے مگر یہ بھی سمجھا کہ ساتھ ساتھ تیرے دنیا پرست دل کو کیسی تشفی دیتا ہے۔{وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ}(سبا:۳۹)کہ جو کچھ تم بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا عوض(دنیا میں بھی)دے گا پیسہ کو گھٹنے نہ دے گا تم دیتے جاؤ گے اللہ کی طرف سے آتا جائے گا۔اسی کی تشریح فرمان رسول سے ملتی ہے فرمان رسالت ہے:
((قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُولُ أَحَدُہُمَا اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُولُ الْاٰخَرُ اللّٰہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا۔))(بخاری:۱۴۴۲)
’’فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ تیری راہ میں خرچ کرنے والے کو عوض دے اور دوسرا کہتا ہے اللہ کنجوس کا پیسہ تلف کردے۔دوسرے الفاظ میں فرشتے کہتے ہیں کہ