کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 56
اپنے اللہ کے پاس بلکہ غیر کے قبضہ میں دیتا ہے اور خوش رہتا ہے بلکہ اسی کی خوشی میں جیتا ہے اور غیر بھی وہ جو کبھی کبھی دغا بھی دیتا ہے۔یہاں دنیا کے بینک اور خرانے دیوالیہ بھی نکالتے ہیں ہزاروں کو رلاتے ہیں گھر گھر صف ماتم بچھاتے ہیں اور ظلم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ صاف فرماتے ہیں {وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ } کہ تم پر کسی قسم کا ظلم نہ ہوگا تمہارا پیسہ نہ تو کم کم ہوگا نہ تلف ہوگا اور ہر کھٹکے سے پاک اور ہر خطرہ سے بے خطر ہوگا۔{وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا } یعنی اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔ اب رہی نفع کی بات کہ اللہ کے خزانے میں نفع کس حساب سے ملتا ہے تو سن اے مال کے دلدادہ دنیا کے شیدائی اللہ کے خزانہ میں وہ نفع ملتا ہے جو کسی کے خیال میں نہیں آسکتا اور نہ دنیا کا کوئی بینک دے سکتا۔یہاں فی سیکڑہ دو چار ملتے ہیں وہاں ایک پر سینکڑوں ملتے ہیں خود صاحب خزانہ فرماتے ہیں: {مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌo}(البقرہ:۲۶۱) ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں تو ان کے مالوں کی مثال ایک دانہ کی سی ہے جس میں سات بالیں لگیں اور ہر بال میں سو دانے پیدا ہوئے اور اللہ اس سے بھی زیادہ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ بڑی فراخی والا اور علم والا ہے۔‘‘ لیجیے مثال سے سمجھایا اور کیسا کھول کر بتایا کہ جس طرح کسی نے ایک دانہ بویا اس میں سات بالیں لگیں پھر ہر بال میں سو دانے لگے تو ایک دانہ سے سات سو دانے ملے اسی طرح اگر کسی نے مثال کے طور پر ایک روپیہ دیا تو اس کا بدلا سات سو گنا تک ملے گا پھر اللہ کے ہاں چونکہ اجر کی زیادتی اور کمی نیت کے کھرے کھوٹے سے ہے اس لیے فرماتے ہیں کہ نیت اس کی اگر بالکل کھری اور خالص ہے تو اس ایک روپیہ کا اجر سات سو گنا سے بھی بڑھ سکتا ہے