کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 55
دنیا اور پرہیزگار تسلیم نہیں ہوگا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اس کا یقین اور بھروسہ اس حد تک نہ پہنچ گیا ہو کہ اس کے ہاتھ میں آئی ہوئی چیز پر اس کو چاہے بھروسہ نہ ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس کی چیز پر اس کو پورا پورا بھروسہ اور اعتماد ہو اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔لہٰذا اے دنیا دار مالدار خدارا ذرا ہوش کر کہ ایسے چوٹی کے پرہیزگار کی پرہیزگاری محض اعتماد اور بھروسہ کی کمزوری سے خاک میں مل گئی تو تیری پرہیزگاری تو اس کے مقابلہ میں پہلے ہی سے خاک ہے۔اگر تیرا بھروسہ اللہ کے وعدوں پر اور اس کے پاس کی چیز پر کمزور ہوا تو تو کس شمار میں آئے گا اور تو اپنے ایمان کو کہاں ٹٹولے گا۔ پھر اے دولت کے عاشق بے شک تو نے دنیا کو خوب برتا مگر افسوس اس کو نہیں سمجھا اور سمجھا تو غلط سمجھا کہ اس کو آخرت کا درجہ نہ دیا۔ذرا ہم سے ایک گر کی بات سن اور پھر ذرا انصاف کر۔پیسہ کی دنیا دار کے نزدیک دو ہی شکلیں ہیں ایک یہ کہ پیسہ اپنا اپنے پاس ہو اور دوسری شکل یہ ہے کہ پیسہ اپنا غیر کے پاس ہو اوّل صورت بظاہر پورے اعتماد کی ہے اور دوسری بالکل بے بھروسہ اور بے اعتمادی کی دیندار کے نزدیک ایک تیسری شکل بھی ہے وہ یہ کہ اپنا پیسہ نہ اپنے پاس ہو نہ غیر کے پاس ہو بلکہ اپنا پیسہ اپنے اللہ کے پاس ہو۔یہ تیسری صورت دیندار کی نظر میں اس سے بھی زیادہ قابل بھروسہ ہے کہ اپنا پیسہ اپنے پاس ہو۔غیر کے قبضہ کا پیسہ تو ہے ہی غیر کا اس میں اپنا کیا۔زیادہ اس کا کم اپنا لیکن اپنے ہاتھ کا پیسہ بھی خطروں سے خالی نہیں طرح طرح کے کھٹکوں میں گھرا ہے آفتوں میں پھنسا ہے۔اگر زندہ ہیں تو چور کا ڈر ہے اگر ذرا غفلت کیجیے تو مال یاروں کا ہے۔اگر ان سب آفتوں سے دامن بچائے تو موت کا کھٹکا ہے اگر موت کا لقمہ ہے تو مال دوسروں کا ہے غرض دنیا کا مال مشکل سے ہاتھ میں رکتا ہے۔مشکل سے آتا ہے تیزی سے نکلتا ہے لیکن جو مال اللہ کی راہ میں دے دیا اس کو گویا ہر کھٹکے سے بچالیا اور ہمیشہ کے لیے اس کو اپنا کرلیا۔اب ہم اس کو تلاش نہیں کریں گے بلکہ وہ ہم کو تلاش کرے گا۔بس موت کا انتظار کرے گا۔اب یہ دنیا کا مال والا بلکہ مال کا رکھوالا سب سے زیادہ گری ہوئی بات کا مجرم ہے کہ یہ پیسہ نہ اپنے پاس رکھتا ہے نہ