کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 5
کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن)
مصنف: سعد حسن یوسفی ٹونکی
پبلیشر: شکیل الرحمن ہاشمی
ترجمہ:
دنیا میں انسان کا وجود
دنیا میں انسان کا وجود اس کی رفتار کا پہلا قدم ہے۔جب سے یہ دنیا میں آیا ہے اس کو ایک منٹ کے لیے قرار نہیں۔سکون سے یہ آشنا نہیں قرار کا یہ خوگر نہیں۔حرکت سے یہ زندہ ہے سکون سے یہ مردہ ہے۔وجود میں انسان کا آنا تھا کہ ایک مسافر کی طرح ایک رخ میں یہ چل پڑا۔اس کے آگے پیچھے کی دو طرفین قائم ہوگئیں۔دنیا اس کے پیچھے ہے آخرت اس کے آگے ہے۔لمحہ بہ لمحہ پیدائش سے دور تر موت و قبر سے قریب تر ہوتا جاتا ہے دنیا کو چھوڑتا جاتا ہے آخرت کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔اس کے بدن کو سکون و قرار ملتا ہے مگر اس کی زندگی کو لمحہ کے لیے قرار نہیں۔یہ چلتا ہے تو وہ چلتی ہے یہ سوتا ہے تو وہ چلتی ہے۔غرض چلنے سے اُس کو کام ہے۔آگے بڑھنے سے اس کو سروکار ہے۔دنیا میں کوئی ایسا راہ گیر نہیں جو کبھی نہ ٹھہرتا ہو۔دنیا میں کوئی ایسا مسافر نہیں جو کبھی دم نہ لیتا ہو مگر انسان کی حیات وہ راہ گیر و مسافر ہے جو منزل مقصود موت ہی پر پہنچ کر سانس لیتی ہے۔دنیا کے سارے خطرات کو جھیلتی ہر مصیبت و آفت کی گود میں کھیلتی آگے ہی آگے بڑھتی جاتی ہے۔یہ بار بار ٹھہرنا نہیں جانتی اسی طرح یہ ایک بار ٹھہر کر پھر چلنا نہیں جانتی۔دنیا اس کی حرکت کا میدان ہے اور آخرت اس کے سکون ابدی کا مقام۔موت سے پہلے جو خطرہ اس کو پیش آئے جس محنت و مشقت سے اس کو سابقہ پڑے اس کی رفتار میں فرق نہیں آتا۔ہر وقت و مصیبت کو سرکرتی ہوئی ہر سنگ راہ سے ٹکراتی ہوئی آخرت کی طرف تیزی سے بڑھتی جاتی ہے۔اپنے خالق سے جلد ملنا چاہتی ہے۔
خالق دو جہان کا صاف ارشاد ہے:
{يٰٓاأَيُّهَا الْاِِنسَانُ اِِنَّکَ کَادِحٌ اِِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیہِ}(الانشقاق:۶)