کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 25
عمل ہے حساب نہیں اور کل یعنی آخرت میں حساب ہی حساب ہے عمل نہیں۔‘‘
لہٰذا اس عملی میدان کو غنیمت جانو اور عمل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔وہاں کے لیے تیاری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرو۔وہاں پہنچ کر وہاں کی فکر نہ کرو وہاں کی یہیں سے فکر کرو اور کچھ لے چلو یہ دنیا کے تیزی سے گزرنے والے لمحات انمول موتی ہیں اگر ان کو کام میں لے لیا اور آگے کا دھیان و خیال کرلیا تو یاد رکھو ہمیشہ کا کام بنالیا۔ابدی پچھتاوے سے جان کو چھڑالینا اور اگر ان لمحات کو یوں ہی گنوایا دنیا کے زرین اوقات کو رائیگاں کھویا تو یوں سمجھو کہ ابدی رنج و غم کو مول لیا آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کو بے مزہ کیا۔چنانچہ مؤمنین کو حضرت باری سے یہی ہدایت ملی ہے کہ اللہ کا ڈر دل میں رکھو کل کا دھیان رکھ کر زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھو۔آخرت کے دن کو ہرگز نہ بھلاؤ۔وہاں کی راحت کا سامان یہیں سے بناؤ۔ارشاد ہے:
{يٰٓاأَيُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللّٰہَ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَo}(الحشر:۱۸)
’’یعنی اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہیے کہ دیکھے نفس کیا بھیجتا ہے کل کے واسطے اور ڈرتے رہو اللہ سے بے شک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
گویا فرمان ہے کہ آخرت کچھ نہیں آج نہیں تو کل ہے بہرحال سر پر ہے۔اُسی کی فکر میں امن و نجات ہے اس سے غفلت میں تباہی و ہلاکت ہے انسان نے کل کا سامان کرلیا تو بیڑا پار ہے۔اگر بے سروسامانی سے چل بسا تو بربادی کا شکار ہے لہٰذا اے دنیا کے مسافر تیرا سفر پرخطر ہے مختصر ہے۔کل کی گھڑی تیرے سر پر کھڑی ہے آخرت کچھ دور نہیں بلکہ تیزی سے تیری جانب بڑھتی آرہی تجھ سے جلد ملاچاہتی ہے۔فرمان نبوی ہے:
((ہٰذِہِ الدُّنْیَا مُرْتَحِلَۃٌ ذَاہِبَۃٌ وَہٰذِہِ الْآخِرَۃُ مُرْ تَحِلَۃٌ قَادِمَۃٌ۔))
’’کہ یہ دنیا کوچ کرنے والی اور جانے والی ہے اور آخرت آگے بڑھنے والی اور آنے والی ہے۔‘‘