کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 24
ہے اس لیے عقل کا تقاضا ہے کہ دنیا کے سفر میں ہوش و بیداری ہو اور منزل آخرت کی پوری پوری تیاری ہو۔یہاں کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل غفلت میں نہ گزرے اس راستہ کا ایک ایک قدم نہایت ہوشیاری اور سنجیدگی سے اٹھے۔ہر وقت یہ نظریہ پیش نظر ہو کہ جو کچھ ہو وہ ذخیرہ آخرت ہو۔یہاں کا کچھ ہو یا نہ ہو لیکن وہاں کا ضرور کچھ ہو۔یہاں کا چاہے سب کچھ بگڑے لیکن وہاں کا ضرور سدھرے۔اس راہ دنیا کا آرام اگر اب ہاتھ سے گیا تو اب رنج ہوگا پھر رنج کبھی نہیں ہوگا لیکن اگر آخرت کے آرام کی پروا نہ کی تو اس کا اب رنج نہ ہو لیکن منزل مقصود پر پہنچ کر رنج ہوگا اور پھر وہ رنج کبھی ختم نہ ہوگا۔اگر دنیا میں عمل بھی ہوتا اور ساتھ ساتھ حساب بھی ہوتا یعنی باز پرس بھی ساتھ ساتھ ہوتی تو آخرت کی راحت شاید ہی کسی کے ہاتھ سے جاتی۔یہاں کی غلطی یہیں نکال لی جاتی۔لغزش اگر ہوتی تو تلافی بھی اس کے ہمراہ ہوتی۔لیکن حقیقت ایسی نہیں۔راہ دنیا محض عمل کا میدان ہے صرف تیاری کا مقام ہے۔یہاں کی غلطی کو یہاں نہیں بھگتنا ہے۔یہاں کی تیاری کا پھل یہاں نہیں کھانا ہے۔یہی حال منزل آخرت کا ہے کہ وہاں راہِ دنیا کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر صرف محاسبہ ہے یا تو گرفت و بندش ہے یا مرحمت و دادو دہش ہے عمل کی کوئی گنجائش نہیں۔تلافی کا کوئی امکان نہیں۔اگر وہاں بھی عمل کا موقع ملتا تو جنت کو کون چھوڑتا دوزخ میں کون گرتا۔دوزخ ویران ہوتی جنت آباد ہوتی۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں یہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اب تک نہ کیا تو اب کرلیں۔اب تک کھویا تو اب کمالیں۔
بس اسی حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر سے دو جملوں میں کیا خوب ظاہر فرمایا ہے اور دنیا اور آخرت کی اس نزاکت کو کیا بہتر طریقہ سے کھولا ہے کہ ارشاد ہے:
((قال علی بن ابی طالب:کُوْنُوْا مِنْ اَبْنَائِ الْاٰخِرَۃِ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنْ اَبْنَائِ الدُّنْیَا فَاِنَّ الْیَوْمَ عَمَلٌ وَلَا حِسَابٌ وَغَدًا حِسَابٌ وَلَا عَمَلٌ۔))
(بخاری،کتاب الرقاق تحت،باب فی الامل وطولہ تحت ۶۴۱۶)
’’ لوگو!آخرت والے بنو دنیا والے نہ بنو کیونکہ آج یعنی اسی سفر دنیا میں عمل ہی