کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 21
میں اپنے مولا کو بھی خوش کردے۔آخرت کے خوشی کے سامان مہیا کرے پیشہ کو آخرت پر قربان کردے مال کو وہاں کی بھلائی پر لٹا دے۔جانتا ہے دنیا کی دولت چلتی پھرتی سایہ ہے آج ہے کل نہیں فقیر و نادار ہوجائے گا تو پستائے گا کہ ہائے امیری میں کچھ کرلیتا آخرت کے دنوں کو نبالیتا تو آج نہ پستاتا۔اگر آج تجھ کو فرصت ہے فراغت ہے تو اس انمول گھڑی کو غنیمت جان۔دنیا کے بازار میں سب کچھ ہے مگر فرصت نہیں ہے۔ہر شخص کام سے نالاں ہے۔شغل میں سرگرداں ہے۔اگر ظاہر میں کوئی بیکار ہے تو اس کی بیکاری بھی اس پر کام سے زیادہ بار ہے۔غرض یہاں دنیا میں فراغت بہت کم ہے مشغولیت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا اگر تو فرصت پالے تو اس کو آخرت کی درستی میں لگادے اسی طرح اگر تو زندہ ہے تو زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر کر اور آخرت کی درستی میں کمی نہ کر۔زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں سانس کا کچھ اعتبار نہیں۔ابھی تو اگر زندوں میں ہے تو ابھی مردوں میں ہے ابھی دوسرے تیرے کندھوں پر ہیں تو ابھی تو خود ان کے کندھوں پر ہے۔لہٰذا موت سے پہلے کچھ کرلے اس چلتی دنیا سے کچھ لے چل۔ورنہ عنقریب اس رہتی بستی دنیا کو تو چھوڑ جائے گا اور خود چل بسے گا۔سب کچھ ہوگا ایک تو نہ ہوگا۔
آخرت کی ہولناکی:
اے دنیا کے مسافر اور آخرت کے راہی اس سفر میں تو نے بڑی بڑی تکلیفیں جھیلیں۔طرح طرح کی ٹھوکریں کھائیں لیکن اگر تو نے پورے سفر میں اپنی آخرت پر نظر رکھی۔دل میں اس کی فکر رکھی تو یاد رکھ ان ساری راہ کی تکلیفوں کو تو موت کے بعد یکسر بھلا دے گا۔منزل آخرت میں پہنچ کر ساری کلفتیں بیک دم دل سے مٹا دے گا اور اگر تو غفلت کا شکار ہوا۔دنیا میں خالی ہاتھ آیا اور خالی ہاتھ یہاں سے چلا تو سمجھ کہ ہمیشہ کے لیے راحت سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ہمیشہ کا چین کھوبیٹھا۔سب سے پہلے تیرے سامنے قبر کی سخت دشوار گزار گھاٹی ہے جس سے تجھ کو گزرنا لازمی ہے۔تیرے نبی مقدس کا فرمان ہے اور عقلمند کے لیے کھلا اعلان ہے:
((اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ