کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 18
آرہی ہو آج کچھ اور کل اور قریب ہورہی ہو اس کو کون عقلمند دور جانے گا۔پھر صاحبزادے کو خطاب فرما کر ’’وانک‘‘ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے صاحبزادے دنیا میں جب سے تم نے قدم رکھا ہے تم ایک راستہ پر چل پڑے ہو۔تمہارے آگے پیچھے کی دو سمتیں قائم ہوگئی ہیں تمہاری پشت دنیا کی طرف ہے اور منہ آخرت کی جانب یعنی دنیا کو چھوڑ رہے ہو آخرت کی سمت میں بڑھ رہے ہو۔جس طرح تمہارا رخ آخرت کی جانب ہے تم اپنے خیال و دھیان کو بھی ادھر ہی پھیردو اور آخرت کو کچھ دور نہ جانو۔پھر ’’وان دارا‘‘ سے اسی حقیقت کو ایک نہایت پاکیزہ مثال سے وضاحت کی روشنی میں لاتے ہیں اور یوں گوہر بار ہوتے ہیں کہ اے صاحبزادے تم ذرا یہ سوچو کہ اگر دو گھر ہوں اور تم ایک سے نکل کر دوسرے کی جانب روانہ ہو تو تم اس گھر سے قریب تر ہو جس کی طرف تم بڑھتے جارہے ہو اور اس گھر سے تم دور تر ہو جس کو تم چھوڑتے جارہے ہو۔رفتہ رفتہ قدم قدم پر پیچھے رہنے والی چیز کس قدر بھی قریب ہو پھر دور ہے لمحہ بہ لمحہ ساعت بساعت آگے سے آنے والی چیز کس قدر بھی دور ہو پھر قریب ہے۔دنیا کی نزدیکی پل پل پر دوری سے بدل رہی ہے۔آخرت کی دوری لمحہ بہ لمحہ نزدیکی سے بدل رہی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اے دنیا کے مسافر منزل آخرت کو دور نہ جان اُس کو اپنے دھیان و خیال سے نکلنے دے۔ہر دم اور ہر گھڑی اُسی کی تیاری میں لگا رہ۔دنیا کو خطرہ میں نہ لا۔اس پر اپنی توجہ نہ لگا جس کو تو چھوڑے اس کی طرف کیا منہ موڑے۔تو ایسا نا عاقبت اندیش نہ بن کر پوری راہ غفلت میں طے کرے پھر آخر جب کوس رحلت بجے اور تو منزل مقصود میں قدم رکھے تو تیری آنکھیں کھلیں تب سمجھے کہ جس کو منزل جانا تھا وہ منزل نہ تھی راہ تھی جس کو ہمیشہ کی فرود گاہ خیال کیا تھا وہ عارضی اور وقتی قیام گاہ تھی۔بس اس حیرانی اور یاس و حسرت میں تو دست حسرت ملے اور زبان پر یہ الفاظ جاری ہوں {یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحْیَاتِیْ}(فجر:۲۴)کہ کاش میں اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجتا جس کو آج یہاں آکر پاتا اور آج خالی ہاتھ نہ ہوتا۔ماضی پر نہ روتا۔کئے کو نہ بھگتتا بلکہ کوشش کا ثمرہ پاتا۔سامان راہ سے فائدہ اُٹھاتا اور