کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 16
اس کا اجر و ثواب زیادہ ہوجائے۔‘‘
اللہ اکبر حرص کو کیا ٹھکانہ ہے کہ ولادت سے لے کر ممات تک ابتدائے حیات سے وفات تک بندہ سربسجود رہا جبہ فرسائی کرتا رہا لمحہ کے لیے مولا سے غافل نہ رہا بچپن بھی اسی طرح گزارا جوانی بھی اسی طرح کاٹی بڑھاپا بھی اسی طرح ختم کیا یہاں تک کہ پیغام اجل کو لبیک کہا مگر جب آخرت میں گیا تو کئے پر تسلی نہ پائی۔لائے ہوئے ذخیرہ پر تشفی نہ ہوئی اور آرزو کرنے لگا کہ پھر دنیا میں جائے اور پھر اسی قدر لائے اور اجر پائے۔لہٰذا اے دنیا کے راہ گیر تو دنیا میں رہ کر دنیا کے لیے حرص مند نہ ہو بلکہ آخرت کے لیے حرص کر۔دنیا میں تھوڑے پر کفایت کر آخرت کے لیے تھوڑے پر صبر نہ کر۔دنیا میں تو جانے کے لیے آیا ہے آخرت میں رہنے کے لیے جائے گا۔جانے والی چیز کو جانے دے باقی رہنے والی چیز کی فکر ہر دم باقی رکھ۔
دنیا دل لگانے کی چیز نہیں آخرت دل سے بھلانے کی چیز نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان ہے جو عقلمند کے لیے کھلا اعلان ہے:
((مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ اِلَّا وَبِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانُ یُسْمِعَانَ الْخَلَائِقَ غَیْرَ الثَّقَْلِیْنِ یَااَیُّہَا النَّاسُ ہَلُمُّوا اِلٰی رَبِّکُمْ مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی۔))(ابونعیم فی الحلیۃ)
’’یعنی آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوؤں میں دو فرشتے ہوتے ہیں جو پکارتے اور مخلوقات کو سناتے ہیں ان کے پکارنے کی آواز کو ساری مخلوق سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے۔وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ لوگو اپنے پروردگار کی طرف چلے آؤ اور اس بات کو جان لو کہ جو مال کم ہو اور کافی ہو وہ اُس مال سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور لہو و لعب میں ڈالے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے باز رکھے۔‘‘
گویا ہر روز فرشتے دنیا کے راہ گیر کو جگاتے ہیں خواب غفلت سے اُٹھاتے ہیں قدم قدم پر آخرت یاد دلاتے ہیں کہ اپنے پروردگار کی طرف دوڑا چلا آ۔تیز تیز قدم اُٹھاتا آ۔تھوڑے پر تسلی کرتا جا بھلائی پر نظر رکھتا جا۔وہ بہت مال کس کام کا جو تجھ کو اپنے مولا سے بھٹکادے دنیا