کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 15
کی مردگی وہاں کی زندگی ہے اور یہاں کی زندگی وہاں کی مردگی ہے۔بس اے دنیا کے راہ رو یہ دنیا تیرا وہ جلد ختم ہوجانے والا راستہ ہے جہاں سے تجھے کچھ لے جانا ہے۔راہ پر چلنا ہے مگر دھیان منزل کا رکھنا ہے زندہ ضرور رہنا ہے مگر زندگی کے بعد کا خیال دل میں جمانا ہے۔تو ناعاقبت اندیش نہ بن کہ اس ناپائیدار دنیا کو رہائش گاہ سمجھ بیٹھے آخرت کو بھلا بیٹھے۔دنیا پر نگاہ جمالے۔آخرت سے نظر پھیرلے۔
دنیا کے ایک ایک لمحہ کی قیمت جان ایک ایک منٹ کی قدر پہچان اگر تو دنیا سے آخرت بناتا ہے۔دنیا دے کر آخرت خریدتا ہے تو یہ دنیا کی گھڑیاں نہیں موتیوں کی لڑیاں ہیں۔اس کا ایک ایک پل انمول موتی ہے اس کی قیمت یہاں نہیں وہاں لگتی ہے۔اگر اس دنیا کے لمحات کی قدر کرلی تو یہاں کا ایک ایک لمحہ دوسرے عالم میں لاکھوں بلکہ بے شمار برسوں کی راحت میں تبدیل ہوگا۔قطرہ سمندر بن جائے گا۔ذرّہ پہاڑ کی شکل میں سامنے آجائے گا تو پھر اس سستے سودے سے پیچھے کیوں ہٹتا ہے اپنی ناسمجھی کا ثبوت خود پیش کیوں کرتا ہے۔یاد رکھ جس طرح تو یہاں دنیا کا بھوکا ہے اس راستہ کی راحت پر مٹا ہے۔دنیا کس قدر بھی تجھے مل جائے ’’ہَلْ مِنْ مَزِیْد‘‘(کیا اور بھی ہے)کا نعرہ لگاتا ہے اسی طرح آخرت میں پہنچ کر تو وہاں ثواب و اجر کا بھوکا ہوگا۔بہت کو تھوڑا جانے گا تھوڑے کو کچھ نہ جانے گا۔اجر و ثواب کے ذرّہ ذرّہ کو ترستا ہوگا۔ذرا غور کر تیرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال سے اسی حقیقت کو کیسا کھولا ہے اور خیر طلبی کے لیے تجھ کو کیسا ابھارا ہے فرمان عالی ہے اور ارشاد گرامی ہے:
((اِنَّ عَبْدًا لَوْخَرَّ عَلٰی وَجْہِہٖ مِنْ یَوْمٍ وُلِدَ اِلٰی اَنْ یَمُوْتَ ھَرِمًا فِی طَاعَۃِ اللّٰہِ لَحَقَّرَہُ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَوَدَّ اَنَّہُ رُدَّ اِلَی الدُّنْیَا کَیْمَا یَزْدَادَ مِنَ الْاَجْرِ وَالثَّوَابِ۔))(احمد:۴/۱۸۴،ح:۱۷۸۰۰۔مشکوٰۃ:۵۲۹۴)
’’کہ اگر کوئی بندہ پیدائش کے دن سے بوڑھا ہوکر مرنے تک خدا کی طاعت و عبادت میں سرنگوں رہے تو وہ البتہ اپنی عبادت و طاعت کو قیامت کے دن حقیر خیال کرے گا اور یہ آرزو کرے گا کہ اس کو پھر دنیا میں واپس کردیا جائے تاکہ