کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 14
وہ مال نہیں وبال ہے وہ مال نہیں تیرے جی کا جنجال ہے۔اے انسان تو دنیا میں آزاد نہیں اپنی مرضی کا آپ مختار نہیں۔تیرے خالق نے تیری رہنمائی کے لیے دین مقدس بھیجا ہے جس کی روشنی میں تجھے چلنا ہے۔ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے اور دین کی جس بات کا تجھ کو علم ہو اس پر حرف بحرف عمل کرنا ہے اگر تو نے جانا اور نہ کیا۔سنا اور نہ برتاؤ یاد رکھ آخرت میں تجھ سے سنگین سوال ہوگا جس کا جواب تیری گردن پر ہوگا۔لہٰذا اس جواب جواب کا یہیں سے دھیان رکھ۔دنیا کا کوئی قدم دین کے خلاف نہ رکھ۔
انسان دنیا میں محض راہ گیر ہے:
اے دنیا کے مسافر تو نے سنا ہے نبی مقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے:
((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ [وَعُدْ نَفْسَکَ فِی اَہْلِ الْقُبُوْرِ]۔))(بخاری:۶۴۱۶۔واللفظ للترمذی:۲۳۳۳)
’’کہ اے دنیا کے راہ گیر تو اپنے کو مسافر جان یہاں کی کلفت کو نہ گردان۔راحت کو نہ پہچان اور یہاں بسنے اور ٹھہرنے کا نہ سامان کر۔یہ دنیا نہیں سرائے ہے یہ قیام گاہ نہیں گزرگاہ ہے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تو نہ مقیم ہے نہ مسافر ہے بلکہ ایک راہ گیر ہے جو چلتا ہی چلتا ہے ٹھہرتا نہیں۔مسافر گو چلتا ہے مگر کچھ دم لیتا ہے۔سستاتا ہے رکتا ہے پڑاؤ کرتا ہے۔سکون و آرام پاتا ہے مگر دنیا کا مسافر ایسا بھی نہیں۔یہ کسی وقت دم نہیں لیتا نہ سستاتا بلکہ ہر وقت رفتار میں ہے۔ہر دم چلنے میں ہے۔گویا تو دراصل مسافر بھی نہیں راہ گیر ہے۔راہ گیر کو قرار سے کیا واسطہ اس کو ٹھہرنے سے کیا سروکار۔اگر یہ ٹھہر جائے تو راہ گیر کیوں کہلائے اگر یہ رک جائے تو یہ مسافر یا مقیم نہ کہلائے۔پھر آگے بڑھ کر ارشاد ہے کہ اے دنیا کی راہ چلنے والے تو دنیا کی زندگی سے بالکل دل اُٹھالے اور اغراض دنیوی سے ایسا بے غرض اور بے لوث ہوجا کہ گویا تو زندوں میں نہیں مردوں میں ہے۔دنیا میں نہیں آخرت میں ہے۔زندوں میں رہ کر زندگی سے دور رہ۔اس زندگی کو زندگی نہ جان اس کو دراصل مردگی سمجھ یہاں