کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 12
یاد رکھ دنیا میں تو اپنی مرضی سے نہیں آیا ہے بلکہ لایا گیا ہے اور وہ بھی بے مقصد نہیں مستقبل کو بنانے کے لیے راہ دنیا پر چلایا گیا ہے تو اس سفر سے اقامت کا دھوکا نہ کھا۔تو اپنے آگے پیچھے کو دیکھ یہ نہ دیکھ تو کیا ہے بلکہ سوچ تو کیا تھا اور کیا ہوجائے گا تو دو عدموں میں گھرا ہے عدم سے آیا ہے عدم کی طرف چل رہا ہے۔یہ تیرا سفر دنیا چند روزہ ہے۔تو دنیا سے ایک تیز رو مسافر کی طرح جلد گزر جائے گا راہ کو چھوڑ جائے گا مگر اس راہ کا عمل تجھ کو نہیں چھوڑے گا۔اُدھر مرا اِدھر تیرے سامنے کھڑا ہوگا۔بس اُس بے بسی کا دھیان ذرا دل میں لا کہ تیرا عمل تیرے سامنے ہو۔تیرا کوئی غمخوار نہ ہو نہ اپنا ہو نہ پرایا ہو۔نہ مددگار و معاون ہو اور نہ ہمدرد و دلگیرہو بس تو ہو اور تیرا عمل ہو اُس وقت بگڑی کو کون سنبھالے گا۔کس کے دامن میں امن لے گا کس کی پناہ ڈھونڈے گا۔یہ دنیا کا دن نہ ہوگا کہ کسی انسان کی تو آڑپکڑلے۔جان بچالے آفت سے خلاصی پالے آئی مصیبت کو سر سے ٹالے اور اپنی ڈوبتی کشتی کو کسی طرح پار لگالے اس دن نہ رشتہ چلے گا نہ ناتا۔نہ ملن سازی کام آئے گی نہ آپس داری بس خود کے عمل کا بوجھ خود ہی پر ہوگا۔اپنے کیے کام کا آپ ہی ذمہ دار ہوگا۔
اس بے کسی اور بے بسی اور تنہائی و پریشانی کے عالم میں اے انسان تو اپنے پروردگار کے روبرو کھڑا ہوگا اور تجھ سے سخت جواب طلب ہوگا تیرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اور کھلا فرمان ہے:
((لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ من عندہ ربہ حَتّٰی یُسْئَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہٗ وَمَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہٗ وَفِیْمَا اَنْفَقَہٗ وَمَا ذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ۔))(ترمذی:۲۴۱۶)
’’کہ قیامت کے دن انسان کے قدم جنبش میں نہ آئیں گے جب تک کہ اس سے یہ پانچ باتیں دریافت نہ کرلی جائیں گی۔اس سے پوچھا جائے گا کہ اپنی عمر کو اس نے کس کام میں صرف کیا۔اپنی جوانی کس کام میں ختم کی۔مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا تھا اس کے موافق کیا عمل کیا۔‘‘