کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 11
کے لیے کچھ لے چل اگر یہاں ہوش نہ لے گا تو وہاں جاکر تجھ کو لامحالہ ہوش آئے گا مگر وہ ہوش تیرے کام نہ آئے گا۔ارشاد ہے:
{وَاِِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْo عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْo}
(الانفطار:۴تا۵)
’’کہ جب قبریں اکھیڑی جائیں گی(اور مردے نکالے جائیں گے)تو ہر شخص جان لے گا کہ اُس نے اپنے سفر دنیا کی آخری منزل آخرت کے لیے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔‘‘
کیا لایا کیا چھوڑ آیا۔کیا بنا لایا کیا کھوآیا۔غرض قیامت میں اصل حقیقت کھل جائے گی۔جھوٹ سچ سے نکھر جائے گی۔غفلت بیداری سے بدل جائے گی مگر گذشتہ کی تلاشی نہ ہوسکے گی۔ندامت و پشیمانی ہوگی یاس و حسرت ہوگی اور اسی طرح ابدی زندگی کٹے گی۔پھر یہیں دنیا سے انسان آگے کے لیے کچھ کیوں نہ لے چلے۔فنا سے بقا کا راستہ کیوں نہ بنائے۔دنیا کی بے چین زندگی میں آخرت کی چین کی راہیں کیوں نہ نکالے۔اس دنیا میں سب کچھ کرسکتا ہے آخرت میں کچھ نہیں کرسکتا جو یہاں نہ کیا وہاں اس کی تلافی نہ کرسکا لہٰذا اے دنیا کے مسافر!اس سفر کو غفلت سے نہ گزار۔دیدۂ و دانستہ نابینا نہ بن۔آنکھ کھول حقیقت کو سمجھ۔راہ کو راہ سمجھ منزل کو منزل۔کیا تو یہاں رہنے کی خوابیں دیکھتا ہے۔کیا کوئی رہا کہ تو رہے گا تو یہ نہیں سوچتا کہ تیرے اس راستہ پر کتنے راہ گیروں کے نشانات قدم ہیں جن کو تو آج یہاں نہیں پاتا۔مکان ہیں مکین نہیں۔گھر میں گھر والے نہیں۔کیونکہ یہ راہ طے کرچکے تو ابھی راہ میں ہے۔یہ گزر چکے تو ابھی گزر گاہ میں ہے۔یہ کھوچکے یا بناچکے تو ابھی امتحان میں ہے بس خدارا خود کو راہ گیر خیال کر۔اس راہ دنیا کی تکلیف سے دل اٹھا۔راحت سے دل نہ لگا۔یہاں کا دکھ منزل کا سکھ ہے۔یہاں کا سکھ منزل کا دکھ ہے اس زرین نکتہ کو اگر تو سمجھ گیا تو آخرت میں سکھ پائے گا۔امن و چین سے رہے گا۔دوسرے روئیں گے تو ہنسے گا۔دوسرے پچھتائیں گے تو اپنے کیے کا پھل کھائے گا۔