کتاب: دنیا کا مسافر یا آخرت کا راہی(جدید ایڈیشن) - صفحہ 10
چرائے گی۔خاوند اپنی چہیتی بیوی اپنی لاڈلی اولاد تک سے بیزار ہوگا جن پر دنیا میں جان و مال عزت و آبرو اور دین و مذہب سب کچھ قربان کرتا تھا اور بہرصورت اُن کو خوش رکھتا تھا۔اپنی جان پر کھیلتا تھا مگر اُن کی جان پر آنچ نہ آنے دیتا تھا۔اُن کی خوشی میں خوش اور اُن کے رنج میں بے کل و بے چین رہتا تھا۔چنانچہ حضرت باری نے خود اس دن کی شناخت اس طرح کرائی ہے۔
{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہٖ وَصَاحَبِتہٖ وَبَنِیْہِ}
(عبس:۳۴ تا ۳۶)
’’یعنی قیامت کے دن انسان دور بھاگے گا اپنے بھائی اپنی ماں اپنے باپ اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔‘‘
پھر یہ اچانک تبدیلی کیوں اور یہ یک بہ یک انقلاب کس لیے؟ یہ اس لیے {لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ}(عبس:۳۷)کہ اس دن ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی جو اس کو دوسروں سے بے پروا کر دے گی۔ہر ایک اپنی نمیڑے گا دوسروں سے منہ موڑے گا۔اپنی جان بچائے گا دوسروں کی فکر چھوڑے گا۔حضرت عزاسمہ نے اسی دن کا تعارف کہیں اس سے فرمایا:{یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَیْئًا}(الانفطار:۱۹)یعنی جس دن کسی شخص کا کسی شخص کے نفع کے لیے کچھ بس نہ چلے گا۔دنیا میں ایک انسان پر آفت آتی دوسرا آڑے آتا۔اس کے لیے ڈھال بنتا۔خود تکلیف جھیلتا مگر دوسرے پر آنچ نہ آنے دیتا۔خود نقصان اُٹھاتا۔دوسرے کو نقصان کا منہ نہ دیکھنے دیتا۔غرض ایک دوسرے کے لیے ڈھارس بنتا مگر ہائے قیامت کا وہ ہولناک اور ہوش ربا دن ہوگا جبکہ کوئی کسی کے کام نہ آئے گا نہ نقصان ٹال سکے گا نہ نفع پہنچا سکے گا۔بس ہر ایک اپنی دھن میں ہوگا خود کی جان کی فکر میں پڑا ہوگا۔نفسی نفسی پکارتا ہوگا۔دنیا کے سارے رشتے پارہ پارہ ہوں گے تعلقات کا شیرازہ بکھرا ہوگا اپنے پرائے کا فرق مٹا ہوگا۔
دنیا میں آخرت کا دھیان:
بس اے ہوشمند انسان یہیں دنیا میں ہوش لے اور اس آگے آنے والے ہولناک دن