کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 8
اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔‘‘ (رواہ البخاری ومسلم )
ایمان بالغیب سے مراد یہ ہے کہ ہر اس چیز پر ایمان رکھا جائے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، اور وہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، خواہ اس کا ہم نے مشاہدہ کیا ہو یا پھر وہ ہم سے غائب ہواورہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ (جوکچھ بھی نصوص شریعت میں وارد ہوئے ہیں ، وہ ) حق اور سچ ہیں ۔
انہی امور میں سے قیامت کی نشانیاں بھی ہیں ؛ جیسے کہ دجال کا نکلنا، حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نازل ہونا، یاجوج ماجوج کا نکلنا ؛ چوپائے کا نکلنا، سورج کا مغرب سے طلوع ہونااور اس طرح دیگر خبریں جو صحیح اور ثابت ہیں ۔
۲۔ قیامت کی نشانیوں کی معرفت سے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارا جاتا ہے ؛ اور قیامت کے دن کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔ اس میں اہل غفلت کے لیے بیداری کا سامان اور توبہ کی ترغیب ہے ؛ تاکہ دنیا کی طرف میلان نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے یہی سلوک کیا تھا جب آپ کو قیامت کی ایک نشانی کے ظاہر ہونے کا علم ہوا۔ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے :
’’ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدارہوئے اور فرمایا: ’’ عرب کی ہلاکت ہے اس شر سے جو قریب ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اس قدر کھول دیا گیا۔ ‘‘
اسی میں یہ الفاظ بھی ہیں : … ’’حجرے والیوں کو جگاؤ کہ وہ نماز پڑھیں ، پس بہت سی دنیا میں لباس پہننے والی آخرت میں ننگی ہوں گی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۳۔ ان نشانیوں میں شرعی احکام اور فقہی مسائل کا بیان ہے۔ دجال کے اس زمین پر قیام والی روایت میں ہے کہ ایک دن سال کے برابر ہوگا، اور ایک دن ایک مہینے کے بر ابر ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے ان دنوں کے بارے میں پوچھا :’’ کیا اس ایک دن میں ایک دن کی نماز کفایت کرجائے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس (دن نمازوں کے اوقات )کااندازہ لگاؤ گے۔ ‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں رہنے والے مسلمان جہاں پر دن اور رات مہینوں کے حساب سے رہتے ہیں ؛کیسے نماز پڑھیں گے۔ ‘‘
۴۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کی نشانیوں کی معرفت کا علم۔ اس لیے کہ قیامت کی نشانیاں غیبی امور میں سے