کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 48
							
						
								
[1] کتاب کو ثالث نہیں بنایا۔‘‘ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا :’’ تمہارے ہم پر تین حق ہیں :
۱۔ یہ کہ تمہیں مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں ۔ 
۲۔ اور نہ ہی تم سے مالِ فے روکیں گے۔
۳۔ اور یہ کہ تم سے قتال کرنے میں ابتدا نہ کریں جب تک کہ تم پہلے کوئی فساد بپا نہ کرو۔ ‘‘ 
						    	
						    
						    	[1] 	(بقیہ )’’ پہلی بات یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں مردوں کو ثالث بنایا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ حکم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد مردوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ میں نے کہا : یہ تو ایک بات ہوگئی ؛ اس کے بعد اور کیا ہے ؟ کہنے لگے : دوسری بات بے شک اس نے قتال کیا، اور لوگوں کو قتل کیا۔ مگر انہوں نے لوگوں کو قیدی نہیں بنایا۔ اور نہ ہی ان سے مال غنیمت حاصل کیا، پس کیا وجہ ہے کہ ہمارے لیے ان سے جنگ لڑنا اور انہیں قتل کرنا تو حلال تھا ؛ مگر انہیں قیدی بنانا حلال نہیں رہا ؟ میں نے کہا : تیسری بات کو ن سی ہے ؟ کہنے لگے :انہوں (یعنی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ )نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لفظ کاٹ دیاہے، اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو پھر ضرور وہ امیر الکافرین ہوں گے۔ میں نے کہا : کیااس کے علاوہ بھی کوئی چیز تمہارے پاس ہے ؟ کہنے لگے: بس یہی باتیں ہمارے لیے کافی ہیں ۔ میں نے ان سے کہا: آپ کا یہ کہنا کہ انہوں نے مردوں کو اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ثالث بنایا ہے، میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے آیت پڑھ کرسناتا ہوں جو تمہارے دعوے کو باطل کردے گی۔تو کیا جب تمہارا دعویٰ باطل ہوجائے گا تم اپنی بات سے رجوع کرلوگے۔ کہنے لگے : ہاں ۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے معاملے میں مردوں کو ثالث بنایا ہے ؛ جو کہ ایک چوتھائی درہم ایک خرگوش کی قیمت ہے۔ اور پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ’’جوکوئی تم میں سے (احرام کی حالت میں ) جان بوجھ کر (یہ جان کر کہ میں احرام باندھے ہوں ) شکار کو مار ڈالے تو چوپائے جانوروں میں سے ویسا ہی جانور جس کو مارا ہے بدلے میں دے تم میں سے دو معتبر شخص اس کو ٹھہرا دیں ۔ ‘‘ (المائدہ: ۹۵) اور عورت اور اس کے شوہر کے بارے میں فرمایا:’’او رجو تم ڈرو کہ میاں بی بی میں کھٹ پٹ ہو گی تو ایک پنچائیت خاوند کے کنبے میں سے اور ایک پنچائیت عورت کے کنبے میں سے مقرر کرو۔‘‘ ( النساء: ۳۵)پس میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ باہمی جھگڑوں میں مردوں کو ثالث بنایا جاتا ہے؟ توکیا ان کا فیصلہ خونریزی سے بچنے کے لیے افضل ہوگا یا ایک خرگوش کی قیمت میں یا عورت کی شرمگاہ کے بارے میں ۔ تم کیا سمجھتے ہو کون سی چیز افضل ہے ؟ کہنے لگے نہیں بلکہ یہ افضل ہے ( کہ خونریزی سے بچا جائے )۔ میں نے کہا : اس شبہ سے اب باہر ہوگئے ؟ کہنے لگے : ہاں ۔ میں نے کہا : رہی تمہاری یہ بات کہ انہوں نے جنگ کی، نہ ہی مال غنیمت حاصل کیا، اور نہ ہی انہیں قیدی بنایا۔ توکیا تم اپنی ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو قیدی بناتے ؟ اللہ کی قسم ! اگر تم یہ کہو گے کہ وہ ہماری ماں نہیں ہے، تو تم اسلام سے خارج ہوجاؤگے۔ اور اللہ کی قسم ! اگر تم یہ بھی کہو گے کہ ہم ضرور اسے قیدی بناتے اور انہیں ایسے ہی حلال جانتے جیسے دوسری لونڈیوں کو ؛ تو تم اسلام سے نکل جاؤ گے۔ پس تم دوگمراہیوں کے درمیان میں ہو۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’پیغمبر تو مسلمانوں پر خود ان سے زیادہ مہربان ہے اور پیغمبر کی بی بیاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ۔ ‘‘ ( الاحزاب: ۶) کیا اب تم اس شبہ سے بھی باہر نکل گئے۔ کہنے لگے : ہاں ۔ میں نے کہا : تمہارا یہ کہنا کہ انہوں نے اپنے نام سے امیر المومنین مٹا دیا ہے۔ میں تمہارے پاس ایسی دلیل لے کر آتا ہوں جس پر تم راضی ہوجاؤ گے۔ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین مکہ ابو سفیان بن حرب اور سہل بن عمرو سے صلح کی۔ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا : ان کے مابین تحریر لکھو! یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی۔ تو مشرکین کہنے لگے : اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اگر ہم جانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم ہر گز آپ سے جنگ نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! توجانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں ۔ اے علی ! اسے مٹادو اور لکھو یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کی۔ ‘‘ اللہ کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی سے بہت بہتر تھے، مگر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ سے رسول اللہ کا لفظ مٹایا ہے۔ (اس مناظرے کے بعد ) ان میں سے دو ہزار آدمی واپس سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی صفوں میں آگئے، اورباقی نے بغاوت کی، اور سارے کے سارے قتل ہوئے۔
						    	
							
						