کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 47
							
						
								
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آخری زمانہ میں ایک قوم پیدا ہوگی جو نوعمر اور کم عقل ہوں گے، باتیں تو اچھے لوگوں جیسی کریں گے (لیکن) وہ قرآن کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ کائنات کے لوگوں میں بہترین باتیں کہیں گے۔وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔‘‘ ( متفق علیہ )
خوارج کے ظہور کی ابتدا:
معرکہ صفین کے ختم ہونے کے بعد اہل شام اور اہل عراق دونوں گروہوں کے مابین ثالثی کے مسئلہ راضی ہونے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ واپس ہونے کے بعد خوارج ان سے علیحدہ ہوگئے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ان کی تعداد آٹھ ہزار تھی۔اور کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد سولہ ہزار تھی۔ بعد میں انہوں نے حروراء کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا تھا۔ 
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا جنہوں نے ان کے ساتھ مناظرہ [1]کیا۔ پھر ان میں سے بعض جناب علی رضی اللہ عنہ خلیفہ مسلمین کی اطاعت میں واپس آگئے، اور باقی لوگ اپنی گمراہی پر قائم رہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ انہیں کوفہ کی جامع مسجد میں انہیں خطبہ دیاتو یہ لوگ مسجدکے کونوں سے آوازیں لگانے لگے: ’’ اللہ کے علاوہ کسی کا حکم نہیں چلے گا۔‘‘ نیز یہ بھی کہنے لگے : ’’ تم نے شرک کیا ہے، تم نے لوگوں کو ثالث بنایا ہے، اللہ تعالیٰ کی
						    	
						    
						    	[1] 	حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خوارج کے ساتھ مناظرہ کا قصہ :… سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب خوارج علیحدہ ہو کر ایک گھر میں داخل ہوگئے تو ان کی تعداد چھ ہزار تھی۔ وہ تمام اس بات پر متفق تھے کہ وہ نکلیں گے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کریں گے۔ معاملہ ایسا ہوگیا تھا جو بھی شخص سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آتا وہ کہتا : اے امیر المومنین ! یہ لوگ آپ کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں ۔ تو آپ فرماتے ہیں : انہیں چھوڑ دو، میں ان سے نہیں لڑوں گا یہاں تک کہ وہ لڑیں ؛ اوروہ عنقریب ایسا ضرور کریں گے۔ ایک دن میں نماز ظہر کے وقت آپ کے پاس آیا اور عرض کیا : اے امیر المومنین ! نماز میں تھوڑی تاخیر کیجیے۔ شاید کہ میں ان لوگوں کے پاس جاؤں اور ان سے بات چیت کروں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : میں آپ کے بارے میں ان سے ڈرتا ہوں ۔ میں نے کہا : ہر گز خطرہ کی کوئی بات نہیں ۔ 
میں ایک خوش اخلاق انسان تھا، کبھی کسی کو تکلیف نہ دیتا۔ میں نے ایک خوبصورت یمنی جبا پہنا، اور پیدل چلتا ہوا آدھے دن میں ان کے پاس گیا۔ میں ایک ایسی قوم کے پاس گیا تھا جن سے زیادہ سخت عبادت و ریاضت والی قوم میں نے نہیں دیکھی تھی۔ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کی وجہ سے ٹکے پڑے ہوئے تھے۔ اور ان کے ہاتھ گویا کہ اونٹوں کے گھٹے تھے۔ ان کے چہروں سے شب بیداری کے آثار واضح تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ کہنے لگے : خوش آمدید، اے ابن عباس ! بتائیے کیسے تشریف لائے ہیں ؟ میں نے کہا : میں تمہارے پاس مہاجر اورانصار صحابہ کی طرف سے حاضر ہوا ہوں ، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سسرالی تعلق رکھتے ہیں ، اور ان ہی لوگوں پر قرآن نازل ہوا اوروہ تم سب سے زیادہ اس کے معانی جاننے والے ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا : قریشیوں سے جھگڑا نہ کرو، اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فر ماتے ہیں : یہ جھگڑالوقوم ہیں ۔ ان میں سے دو یا تین کہنے لگے : ہم ضرور ان سے بات چیت کریں گے۔ میں نے کہا : لاؤ کس چیز کی وجہ سے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد سے اور مہاجر و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے انتقام لے رہے ہو؟ ان لوگوں پر ہی تو قرآن نازل ہوا ہے، اور تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ان سے زیادہ قرآن کی تفسیر کو سمجھتا ہو۔ کہنے لگے تین باتیں ہیں ۔ میں نے کہا :لاؤ وہ کون سی تین باتیں ہیں ؟ کہنے لگے: ( اگلے صفحہ پر )
						    	
							
						