کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 46
							
						
								
۱۰۔ خوارج کا ظہور 
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک، بعض ان فرقوں کا ظہور بھی ہے جن کا منہج ( طریق کار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے منہج کے خلاف ہوگا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی جماعت کے ساتھ مل گئے تھے اور پھر سیّدنا علی اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین تحکیم (ثالثی) کے مسئلہ پر آپ کی اطاعت گزاری سے بھی نکل گئے، اورانہوں نے کوفہ کے قریب حروراء نامی گاؤں میں ڈیرے ڈال دیے۔ 
خوارج کے بعض عقائد:
۱۔ کبیرہ گناہ(جیسے شراب نوشی اورزنا کاری ) کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں ۔ ایسے انسان کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ یہ انسان ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ یہ کھلم کھلی گمراہی ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ جب کسی مسلمان سے کوئی کبیرہ گناہ واقع ہو جائے تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا مگر وہ اپنے اس فعل کی وجہ سے گنہگار او راللہ کی نافرمانی کرنے والا ہوگا۔ اور اس پر واجب ہوتا ہے کہ فوراً گناہ کو چھوڑ دے اور اللہ کی بارگاہ میں اپنی اس معصیت پر توبہ کرے۔ 
۲۔ یہ لوگ سیّدنا علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے علاوہ دیگر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو جوکہ تحکیم (ثالثی)کے مسئلہ پر راضی تھے ؛ کافر کہتے ہیں ۔ 
۳۔ ان حکمرانوں کے خلاف جنگیں کرتے ہیں جو ایسے فسق و فجور کے کام کرتے ہیں جو کہ حد کفر کو نہیں پہنچتے۔ 
۴۔ یہ لوگ علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور عبادت میں بڑی محنت و مشقت کرتے ہیں ۔ مگر کتاب اللہ کے احکام سے بالکل جاہل ہیں ، ان ہی لوگوں میں سے ایک ذو الخویصرہ بھی تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 
’’وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔‘‘[1]
						    	
						    
						    	[1] 	سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ آپ کے پاس ذوالخویصرہ جو بنی تمیم میں سے ایک ہے اس نے کہا:’’ اے اللہ کے رسول! انصاف کر یں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری خرابی ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون ہے جو انصاف کرے گا اور تو بدنصیب اور نقصان اٹھانے والا ہوگیا اگر میں نے عدل نہ کیا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیوں کہ اس کے ساتھی ایسے ہوں گے کہ تمہارا ایک آدمی اپنی نماز کو ان کی نماز سے حقیر تصور کرے گا اور اپنے روزے کو ان کے روزے سے اور قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسا کہ تیر کمان سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اس کے بھالہ کو دیکھتا ہے تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا، پھر اس کے کنارے کو دیکھتا ہے تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا۔ پھر اس کی لکڑی کو دیکھتا ہے تو کچھ نہیں پاتا حالانکہ تیر پیٹ کی گندگی اور خون سے نکل چکا ہوتا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں سے ایک آدمی ایسا سیاہ ہے کہ اس کا ایک شانہ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگا جو تھرتھراتا ہوگا۔ یہ اس وقت نکلیں گے جب لوگوں میں پھوٹ ہوگی۔ ابوسعید کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کیا اور میں آپ کے ساتھ تھا، آپ نے اس آدمی کو تلاش کرنے کا حکم دیا جب وہ ملا تو اسے علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ یہاں تک کہ میں نے اسے ویسا ہی پایا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
						    	
							
						