کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 341
ہیں ۔ ان میں سے ایک دھواں ظاہر ہوچکا ہے (جیسا کہ ابن مسعود کا قول ہے ) ؛ او ردوسرا دھواں ابھی ظاہر ہونا ہے جو کہ آخری زمانے میں ہوگا، پہلی جو نشانی ظاہر ہوچکی وہ وہی ہے جو قریش میں دھویں کی شکل میں ظاہر ہوئی، یہ وہ حقیقی دھواں نہیں ہے جو کہ قرب ِ قیامت میں اس وقت ظاہر ہوگاجب باقی نشانیاں بھی ظاہر ہوں گی۔ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ ’’وہ دو قسم کے دھویں ہوں گے، ایک قسم کا دھواں گزر چکا ہے، اور جو دھواں باقی رہتا ہے وہی ہے جو آسمان اور زمین کو بھر دے گا، مومن کو اس سے صرف زکام جتنا احساس ہوگا، جب کہ کافر کے کانوں میں سوراخ ہوجائیں گے۔‘‘ (التذکرہ ازامام قرطبی: ۵۵ ۶) اس میں راجح قول یہی ہے کہ یہ دھواں ان نشانیوں میں سے ایک ہے جن کاانتظار کیا جارہا ہے اورابھی تک یہ نشانی پیش نہیں آئی۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مفہوم ہے : ’’تو (اے پیغمبر ) اس دن کاانتظار کر جب آسمان سے ایک کھلا دھواں اٹھے گا۔‘‘ (الدخان: ۱۰) یعنی آسمان میں ایسا صاف اور واضح دھواں ظاہر ہوگا جسے ہر کوئی دیکھ سکے گا ( کسی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہے گا ) رہا سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وہ قول جو کہ انہوں نے قریش کے بارے میں بیان کیاہے ؛ بے شک وہ ایک خیال ہے، جو کہ وہ بھوک کی شدت او رقحط سالی کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ایسے ہی ہے : ’’وہ لوگوں کو ڈھانک لے گا۔‘‘…یعنی حقیقی طور پر ان کو گھیر لے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان : ’’یہ دردناک عذاب ہے۔‘‘… یعنی لوگوں سے کہا جائے [کہ یہ دردناک عذاب ہے ] اور دھویں نے ان کو خوفزدہ کررکھا ہوگا، یہی دردناک عذاب ہوگا۔ دھویں کے بارے میں وارد احادیث ٭ سیّدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم باہم گفتگو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم کس بات کا تذکرہ کر رہے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وہ ہرگز قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم اس سے پہلے دس علامات دیکھ لوگے پھر دھوئیں دجال…‘‘ (مسلم)