کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 340
میں سے ہوں ۔‘‘
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں سے بعضوں کی رو گردانی دیکھی تو فرمایا:
’’ اللہ نے اس پر سات سالہ قحط نازل فرمایا جیسا کہ یوسف کے زمانہ میں سات سالہ قحط نازل ہوا تھا۔‘‘
’’( ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا )پس ان پر ایک سالہ قحط آیا جس نے ہر چیز کو ملیا میٹ کر دیا یہاں تک کہ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور مردار کھائے گئے۔ اور ان میں سے جو کوئی آسمان کی طرف نظر کرتا تھا تو دھوئیں کی سی کیفیت دیکھتا تھا۔‘‘ [1]
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں :
’’(پانچ باتیں گزر چکی ہیں :
۱۔لزام :[اس پکڑ سے مراد بدر کے دن کی پکڑ ہے]
۲۔اور روم [مراد روم کی فتح ہے ]
۳۔ بطشۃ (پکڑ ) [مقصود غزوہ بدر کی پکڑ ہے ]
۴۔ چاند [مراد چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے ]
۵۔ دھواں [کی علامات کی نشانیاں گزر چکی ہیں ]‘‘ (مسلم)
بہت سارے علمائے کرام کا خیال ہے کہ دھواں ان نشانیوں میں سے ہے جو ابھی تک پوری نہیں ہوئیں ، اور قرب قیامت میں یہ نشانی بھی پوری ہوگی۔ یہی قول حضرت علی بن ابو طالب، ابن عباس اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم اجمعین کا قول ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آیات و احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے۔ ان احادیث کا ذکر گزر چکا ہے۔
بعض علمائے کرام نے ان دونوں اقوال کے مابین جمع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دھویں سے مراد دو دھوئیں
[1] پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوسفیان حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے محمد! بے شک آپ اللہ کی اطاعت کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دینے کے لیے تشریف لائے ہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم و برادری تحقیق ہلاک ہو چکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ان کے لیے دعا مانگیں اللہ رب العزت نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتظار کریں اس دن کا جس دن کھلم کھلا دھواں ظاہر ہوگا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا یہ دردناک عذاب ہے بے شک تم لوٹنے والے ہو۔‘‘… تک نازل فرمائیں تو انہوں نے کہا: کیا آخرت کا عذاب دور کیا جاسکتا ہے۔ تو اللہ عزوجل نے فرمایا: جس دن ہم پکڑیں گے بڑی گرفت کے ساتھ بے شک ہم بدلہ لینے والے ہوں گے… تکمیل حدیث از مترجم