کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 339
(کہیں گے) یہ تو تکلیف کاعذاب ہے۔اے مالک! ہمارے یہ عذاب ہم پر سے ٹال دے ہم ایمان لائیں گے۔ان کو (اس دھوئیں سے) کہاں نصیحت ہوگی اور (ان کاتو حال یہ ہے) ان کے پاس ایک پیغمبر آچکا جس نے کھول کر سنادیا۔ (سب باتیں بتادیں )‘‘ (الدخان: ۱۰-۱۳)
دھویں کے بارے میں علمائے کرام کے دو اقوال
بعض علمائے کرام کا خیال یہ ہے کہ یہاں پر دھویں سے مراد وہ قحط سالی اور بھوک و تنگی ہے جو قریش پر مسلط ہوئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش پر بددعا کی تھی؛ جب انہوں نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا؛ تو حالات ایسے ہوگئے کہ وہ لوگ اگر آسمان کی طرف نظر اٹھاتے تو انہیں شدت آزمائش کی وجہ سے دھویں کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا۔ یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ہے، اور سلف صالحین کی ایک جماعت ان کی اتباع کی ہے۔ اور علامہ ابن جریر طبری نے اسے راجح قرار دیاہے۔
سیّدنا مسروق بن اجدع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ ہم جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے( اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ) ان کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا: ’’اے ابوعبدالرحمن ! ایک قصہ گو بیان کر رہا ہے اور گمان کرتا ہے؛ کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے وہ دھواں آنے والا ہے، پس وہ کفار کی سانسوں کو روک لے گا؛ اور مومنین کے ساتھ صرف زکام کی کیفیت پیش آئے گی۔‘‘
حضرت عبد اللہ غصہ سے اٹھ بیٹھے؛ پھر فرمایا: اے لوگو ! اللہ سے ڈرو تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق ہی بیان کرے؛ اور جو بات نہیں جانتا تو کہے: اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیوں کہ تم میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جو جس بات کو نہ جانتا ہو اس کے بارے میں کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے، پس بے شک اللہ رب العزت نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں میں تم سے اس بات پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں