کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 314
سیّدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آگے پیچھے ہوگئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے یہ دو آیتیں پڑھیں : ﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ٭یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ …﴾۔ ’’ لوگو! اپنے مالک کے عذاب سے ڈرو کیوں کہ قیامت کا بھونچال ایک بڑی آفت ہے۔جس دن تم اس کو دیکھو گے ہر انا (دودھ پلانے والی) اپنے بچے کو جس کو وہ دودھ پلاتی ہے بھول جائے گی (یا دودھ پلانا بھول جائے گی اتنا ہول ہوگا) اورہر پیٹ گر جائے گا ) اورلوگ ایسے دکھائی دیں گے جیسے (نشہ میں ) متوالے ہیں اور حقیقت میں ) متوالے نہ ہوں گے بلکہ خدا کاعذاب سخت ہے۔‘‘ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کہنے والے ہیں ؛ لہٰذا اپنی سواریوں کو دوڑا کر آگے آگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے؛ وہ جواب دیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : اے آدم علیہ السلام ! جہنم کے لیے لشکر تیار کرو۔ وہ کہیں گے: اے اللہ! وہ کون سا لشکر ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ: ہر ہزار آدمیوں میں سے نوسونناوے جہنمی اور ایک جنتی ہے۔ اس بات سے لوگ مایوس ہوگئے۔ یہاں تک کہ کوئی مسکرا بھی نہیں سکا۔ چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو غمگین دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو اور بشارت دو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے ! تمہارے ساتھ دو مخلوقیں ایسی ہوں گی جو جس کسی کے ساتھ مل جائیں ان کی تعداد زیادہ کر دیں گی۔ ایک یاجوج ماجوج اور دوسری جولوگ بنی آدم اوربنی ابلیس سے مر گئے۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پریشانی ختم ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: