کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 289
دجال پر حرام ہوگا کہ وہ مدینہ کے راستوں میں داخل ہو۔ اس وقت مدینہ کے رہنے والوں پر ایک یا دو زلزلے آئیں گے۔ پس ہر ایک منافق مرد اور عورت دجال کی طرف نکل پڑے گا۔ پھر دجال کوشام کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ شام کے بعض پہاڑوں پر آئے گا۔ اوران کا محاصرہ کرلے گا۔ اور باقی مسلمان شام کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہوں گے۔ دجال اس پہاڑ کے نچلے حصے میں آئے گااور ان کا محاصرہ کرلے گا۔ یہاں تک کہ جب ان پر آزمائش کی گھڑی بہت سخت ہوجائے گی تومسلمانوں میں سے ایک انسان کہے گا: اے مسلمانوں کے گروہ ! کب تک تم ایسے رہوگے؟ اور اللہ کا دشمن تمہاری زمین پر یوں پڑاؤ ڈالے ہے؟ تم صرف دوبھلائیوں میں سے ایک کو ہی اختیار کرسکتے ہو۔ یا تو یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شہادت سے سرفراز کردے۔ یا یہ کہ اللہ تمہیں اس دشمن پر غلبہ عطا کردے۔ پھر مسلمان موت پر بیعت کریں گے، جس کو اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ ان کے دلوں سے سچی بیعت ہوگی۔ پھر ان کے ہاں ایک اندھیرا پھیل جائے گا[1]جس کوئی انسان اپنے ہاتھ کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ اس وقت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے۔ان کی آنکھوں کے سامنے سے وہ اندھیرا دور کردیا جائے گا۔پس ناگہاں ان کے درمیان ایک آدمی موجود ہوگا، جس پر اس کا سامان جنگ بھی ہوگا۔ وہ کہیں گے : اے اللہ کے بندے ! تم کون ہو؟ وہ کہے گا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ؛اس کی روح اور کلمہ عیسیٰ بن مریم ہوں ۔ تم تین باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلو : ۱:… یہ کہ اللہ تعالیٰ دجال اور اس کے لشکر پر آسمانوں سے کوئی عذاب نازل کردے۔ ۲:…یا اللہ تعالیٰ اسے زمین میں دھنسا دے۔ ۳:… یاپھر ان پر اللہ تعالیٰ تمہارے اسلحہ کو مسلط کردے اور تم سے ان کے اسلحہ کو روک دے۔ وہ لوگ کہیں گے : اے اللہ کے رسول ! یہ آخری بات ہمیں منظور ہے، یہ ہمارے سینوں اور دلوں کے
[1] مرادیہ ہے کہ جب مسلمان دجال سے لڑائی لڑنے کا پکا عزم کرلیں گے، تو وہ فجر کی نماز سے پہلے اسی حال میں ہوں گے کہ ان کا وعدہ نماز فجر کے بعد جنگ کرنے کا ہوگا۔ نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی۔ اور امام نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے گا۔ کہ اچانک تکبیر سے پہلے ان کی اس جگہ پر اندھیرا پھیل جائے گا۔ پھر یہ اندھیرا ختم کردیا جائے گا؛ کہ وہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اپنے ساتھ اس جگہ پر دیکھیں گے، ان کے ساتھ ان کا سامان جنگ بھی ہوگا۔