کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 21
جیسے کہ چوپائے کا نکلنا، اور دجال کا ظہور۔
تیسرا قاعدہ:… علاماتِ قیامت کی احادیث کو غلط جگہوں پر منطبق کرنے کے خطرات
۱۔لاعلمی پر مبنی غائبانہ اٹکل پچو باتیں
جب آپ کسی حدیث میں وارد قیامت کی نشانی کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں کہیں گے کہ یہ نشانی ایسے ایسے پیش آچکی ہے ؛ تو آپ کا یہ دعویٰ شرعی یا نظری دلیل یا قرینہ کا محتاج ہوگا۔ جب کہ اس بارے میں نہ ہی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ اور کسی بھی سچے مسلمان اور مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی زبان کو ان امور شریعت میں بے لگام چھوڑ دے جن کے بارے میں اسے کوئی (حتمی ) علم نہیں ہے۔
۲۔ مشروع عمل کو ترک کرنایا غیر مشروع عمل کا کرنا:
بعض لوگوں نے جب وہ کتابیں پڑھیں جو امام مہدی کے بارے میں بحث کرتی ہیں ، اور ان کے مؤلفین نے حتمی طور پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ مہدی فلاں انسان ہے۔ تو بعض قارئین خروج مہدی کا انتظار کرنے لگے اور اس کے ظہور کے اعتبار سے اپنے کاموں کو ترتیب دینے لگے۔ بعض لوگوں نے تو تلوار اور گھوڑے بھی خرید لیے تاکہ وہ آنے والے سالوں میں انتہائی خون ریز جنگوں کے لیے خود کو تیار کرسکیں ۔ بعض نے تو شادی کرنے یا گھربنانے کوبھی ترک کردیا۔ اس لیے کہ ان کے خیال کے مطابق دجال کے خروج میں دو کمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ہے اور اس طرح کی کئی دیگر باتیں بھی ہیں جنہیں طوالت کے پیش نظر چھوڑا جا رہا ہے۔
۳۔ممکنہ خطرہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا جانے لگے:
اگر واضح الفاظ میں کسی انسان کے متعلق جب یہ کہا جائے کہ مہدی سے مقصود وہی انسان ہے اور پھر اس کے خلاف ظاہر ہو، تواس کی وجہ سے لوگ مہدی کے بارے میں وارد احادیث کو جھٹلا سکتے ہیں ۔ یہی مثال اس کے علاوہ باقی نشانیوں کی بھی ہے، جب ان کی صحت کے بارے میں بغیر یقین کامل کے دو ٹوک الفاظ میں کہا جائے کہ یہی وہ نشانی ہے جو احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ ( تو پھر اس کے خلاف اگر ظاہر ہوجائے تو عام لوگ احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوکر ان کا انکار کرسکتے ہیں )