کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 204
والے صاحب بصیرت انسان پر یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بری ہیں ۔ اس لیے کہ ان روایات میں غلو ہے، اور تاریخ میں ایک خبط ہے جو کہ مبالغہ آرائی میں غرق ہے۔لوگوں کے معاملات سے جہالت اور اللہ تعالیٰ کی معروف سنتوں سے دوری ان احادیث کے مطالعہ کا پہلا احساس ہے اور یہ کہ یہ احادیث جھوٹی اور من گھڑت ہیں ۔ جنہیں بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں اور حکومت کی لالچ رکھنے والوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ۔‘‘ (دائرہ المعارف بیسویں صدی: ۱۰/ ۴۸۱)
ان لوگوں کے اس بارے میں دلائل :
۱۔ قرآن کریم نے مہدی کا ذکر نہیں کیا، اگر یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہوتا تو قرآن اس کو ضرور ذکر کرتا۔
جواب: …بے شک قرآن نے تمام قیامت کی نشانیوں کا ذکر نہیں کیا ؛ پس قرآن میں دجال کا ذکر نہیں ، آخری زمانے میں واقعہ ہونے والے زمین میں دھنسنے کے واقعات کا ذکر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ یہ تمام چیزیں سنت میں بیان ہوئی ہیں ۔ جب کوئی چیز سنت سے ثابت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا سنت کے بارے میں فیصلہ ہے :
’’وہ اپنی خواہش سے بات تک نہیں کرتے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔‘‘ (النجم :۳)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’مجھے قرآن اور اس کی طرح دیا گیا ہے ۔‘‘ (بخاری)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا تذکرہ فرما دیا تو وہ ثابت ہوجاتی ہے۔پس یہ بھی ثابت شدہ دین میں سے ہے۔
۲۔ مہدی کے بارے میں بخاری ومسلم میں کوئی حدیث نہیں ؟
جواب : …امام بخاری اور مسلم نے تمام احادیث نبویہ کو جمع نہیں کرلیا بلکہ ان کے علاوہ بھی کتب سنہ کے جامعین محقق ائمہ ہیں جنہوں نے یہ احادیث جمع کی ہیں اورہمارے پاس ایسے طریقے ہیں جن کی وجہ سے صحیح حدیث اور ضعیف یا موضوع حدیث میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرنا واجب ہوجاتا ہے ؛ خواہ وہ حدیث بخاری و مسلم میں ہو یا کسی دوسری کتاب میں ۔