کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 19
اس سے ان کی مراد مختار بن ابو عبید ثقفی ہے، جو کہ انتہائی جھوٹا انسان تھا۔ اس کے قبیح ترین جھوٹ میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے پاس جبرئیل امین آتے ہیں ۔ علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہاں پر کذاب سے مراد مختار بن عبید اور ظالم سے مراد حجاج بن یوسف ہے۔ واللہ اعلم ۲۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ زمین حجاز سے آگ نکلنے تک قیا مت قائم نہ ہوگی جو کہ بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی۔‘‘ یہ آگ یقیناً نکل چکی ہے اورکہا جاتا ہے کہ یہ آگ تین مہینے تک رہی۔ اور مدینہ کی عورتیں اس آگ کی روشنی میں سوت کاتا کرتی تھیں ۔ ابو شامہ اس آگ کے متعلق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ بدھ کی رات ۳ جمادی الآخر۶۵۴ ہجری کو مدینہ میں آوازیں پیدا ہوئیں اور تیز ہوا چلی؛ اس کے بعد زلزلہ آیا، جس سے زمین کانپ اٹھی؛ چھتیں ، دیواریں اور لکڑیاں لرزہ براندام ہونے لگیں ۔(اسی مہینہ کے )جمعہ کے دن تک ہر گھنٹے کے بعد ایسا ہوتا رہا۔ پھر بنی قریظہ کے قریب حرہ کے علاقے میں بہت بڑی آگ ظاہر ہوئی۔ ہم اس آگ کو اپنے گھروں سے مدینہ کے اندر دیکھتے تھے۔گویا کہ وہ ہمارے ہاں ایک بہت بڑی آگ ہو۔ وادی شظاکی طرف اس آگ سے وادیاں بہہ پڑیں اور اس آگ کی چنگاریاں گویا کہ ایک ’’محل‘‘ ہوتی تھیں ۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ہمارے زمانے میں ۶۵۴ ہجری میں مدینہ منورہ میں آگ نکلی۔ یہ بہت بڑی آگ تھی جو مدینہ کے شرقی علاقے ’’حرہ‘‘ کے پچھلی جانب سے نکلی تھی اور اس آگ کے نکلنے کا علم حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔ ‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جو بات میرے لیے ظاہر ہوتی ہے کہ یہی مذکورہ آگ مدینہ کے نواحی علاقہ میں ظاہر ہوئی تھی جیسا کہ امام قرطبی اور دوسرے لوگ سمجھے ہیں ۔ ‘‘ (فتح الباری) ۳۔ وہ روایت جسے امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ فتنے ظاہر ہوں ، اور جھوٹ کی کثرت ہو، اور بازار قریب قریب ہوجائیں ، اور زمانہ آپس میں قریب ہوجائے، اور ہرج بہت زیادہ ہوجائے۔‘‘ پوچھا گیا یا رسول اللہ !