کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 18
سے پہلے دجال کو ایران میں حکومت عطا کی جائے گی۔‘‘ پھر وہ بیان کرتا ہے کہ ’’وہ یعنی دجال محمد خاتمی ہے اور اس کا لقب آیۃ اللہ گوربا چوف ہے۔ ‘‘
ایک دوسرے مصنف نے اپنی کتاب ’’المسیح الدجال ‘‘ میں دو ٹوک الفاظ میں یقینی طور پر کہا ہے کہ مہدی منتظر سابق عراقی صدر صدام حسین (شہید رحمہ اللہ ) ہے۔ ‘‘[1]
محمد امین جمال نے اپنی کتاب ’’ہرمجدون‘‘ میں یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ وہ سفیانی جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے، اس سے مراد صدام حسین ہے۔
ایک اور مصنف نے اپنی کتاب ’’ اشراط الساعۃ و ہجوم الغرب ‘‘(قیامت کی نشانیاں اور مغرب کا ہجوم) میں یہ خیال ظاہر کیاہے کہ اس سفیانی سے مراد اردن کا سابق بادشاہ ’’ شاہ حسین ‘‘ مراد ہے۔[2]
ایسے دعووں کے بارے میں دوٹوک رائے اختیار کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ ہاں ، اگر واضح طورپر قرائن جمع ہو جائیں کہ کسی حدیث میں وارد نشانیاں پورے طور پر کسی واقعات پر صادق آتی ہیں ۔ اور یہ معاملہ بھی اتنا واضح ہو کہ اس میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش باقی نہ ہو، تو اس حدیث کو ایسے واقعہ پر منطبق کرنے میں کوئی حرج نہیں ، مگر اس کے ساتھ یہ امکان بھی باقی رہتا ہے کہ یہ حدیث اس واقعہ سے مشابہت رکھنے والے کسی دوسرے واقعہ پر بھی صادق آسکتی ہے یا کسی دوسرے واقعہ میں اس سے بڑھ کر بھی واضح ہوسکتی ہے۔
اس کی چند اور مثالیں
۱۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کے واقعہ میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، انہوں نے حجاج بن یوسف ثقفی جو کہ سیّدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے لشکر کی قیادت کررہا تھا، اسے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک حدیث بیان فرمائی تھی کہ’’ قبیلہ ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہوگا کہ کذاب کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں سمجھتی۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ’’حجاج اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اسما کو کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘ (مسلم )
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا جھوٹے کے متعلق یہ فرمانا کہ ’’ ہم نے اسے دیکھ لیا ہے‘‘
[1] صدرصدام حسین رحمہ اللہ کو ۱۴۲۷ ہجری ۱۰ ذوالحجۃ کو پھانسی دے کر شہید کیا گیا۔ اس کتاب ’’ المسیح الدجال کے مصنف کا نام سعید ایوب ہے۔
[2] شاہ حسین کاانتقال ۱۹۹۹ ء میں ہوا۔ اس کتاب کے مصنف کا نام ہے: ’’فہد السالم۔ ‘‘