کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 17
لیکن اگر اس اجتہاد کی وجہ سے مسلمانوں کی صفوں میں تفریق پیدا ہورہی ہو،یا اس اجتہاد پر کوئی شرعی قباحت ہو، یا دلیل اس کے خلاف ہو تو ایسے انسان کو اس اجتہاد سے منع کیا جائے گا؛ اور اسے تعزیراً سزا بھی دی جائے گی۔ الایہ کہ اس کے پاس کوئی دلیل موجود ہو۔(وہ مسائل جن میں اجتہاد سے منع کیا جائے گا): جیسے قتال یا فتنہ کالزوم؛ یا کسی غیر کی بے عزتی کرنے کو مباح سمجھنا، یا صفوں میں انتشار پیدا کرنا، اس میں بغیر دلیل ِ وحی کے اجتہاد جائز نہیں ہے۔
قیامت کی نشانیوں سے متعلق احادیث کے ناظرین میں سے بعض ماضی اور حاضر کے واقعات کو جمع کرنے کے گرویدہ ہیں اور وہ احادیث جن مین مستقبل میں پیش آنے والے امور اور قیامت کی نشانیوں کا ذکر ہے ؛ انہیں بہ تکلف واقعات پر فِٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ان میں سے کوئی ایک جب یہ حدیث پڑھتا ہے :
’’ عنقریب اہل عراق کی طرف(خراج) میں نہ کوئی قفیز[1] آئے گا اور نہ ہی کوئی درہم۔ ‘‘ وہ اس کے بارے میں کہتے ہیں : ’’قیامت کی یہ نشانی ۱۴۱۰ ہجری بمطابق ۱۹۹۰ عیسوی میں پیش آچکی ہے، جب امریکہ (عجمی ملک ) کی طرف سے عراق کا اقتصادی محاصرہ کیا گیا۔
اگرچہ اپنی جگہ واقعی اس کا بہت بڑا احتمال ہے؛ مگر یہ طریقہ کہ احادیث کویوں زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر منطبق کرنے میں تھوڑا سا منہج سلیم سے رو گردانی ہے، اور یہ معاملہ اس وقت اور بھی سخت ہوجاتا ہے جب اس کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں (یقینی طور پر قیامت کی نشانی ہونے کا) کہا جائے۔
اس بارے میں سب سے عجیب بات تویہ ہے کہ بعض علماء نے دنیا وی عمر کی حد مقرر کی ہے، بعض نے نو سوسال اور بعض نے ہزار سال کہا ہے ؛ اور اس بارے میں ان روایات کا سہارا لیا ہے جو امام سیوطی اور امام سخاوی رحمہما اللہ اور کچھ دوسرے علماء کے ہاں پائی جاتی ہیں ۔
کتابوں میں اس کے متعلق مثالیں
جوکچھ صاحب کتاب ’’ اسرار الساعۃ‘‘(قیامت کے اسرار ) نے ذکر کیا ہے کہ ’’ظہور مہدی
[1] قفیز، پیمانے کی ایک قسم ہے، جسے اہل عراق استعمال میں لایا کرتے تھے۔ اور اس کی جگہ آج ہم کلو گرام اور رطل وغیرہ استعمال کرتے ہیں ۔