کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 16
قیامت کی نشانیوں کو واقعات پر منطبق کرنے کے قواعد
ماضی اور حال کے ہر دور میں مختلف اطراف سے علامات ِقیامت والی احادیث کو واقعات پر منطبق کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ؛ اور ان کے بارے میں دو ٹوک طور پر کہا جاتا رہا ہے کہ یہی وہ نشانی ہے جس کے بارے میں خبر دی گئی تھی۔ اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ قیامت کی نشانیوں کو واقعات پر منطبق کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط بھی تحریر کردوں ۔
پہلا قاعدہ:… ہم سے یہ مطلوب نہیں ہے کہ ہم ان احادیث کو واقعات پر منطبق کریں
جو انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے اپنے تمام احساسات کے ساتھ اپنے شب و روز میں اس کا مشاہدہ کررہا ہے، اس کے ساتھ جو سخت ترین حالات پیش آرہے ہیں وہ لوگ اس کا اس شدت سے احساس نہیں کررہے جن کے حواس و مدارک ماضی کا ساتھ نہیں دے رہے۔ زمانہ ٔحاضر میں موجود انسان اپنے زمانے کے حوادثات کو بہت ہی بڑا سمجھتا ہے او ران سے خوف کھاتا ہے۔ اورزمانہ حاضر کے چھوٹے مصائب بھی ماضی کے بڑے مصائب سے زیادہ سخت اور بڑے ہیں ۔
اسی وجہ سے یہ مشاہدہ کرنے والا قیامت کی نشانیوں اور ان کے مقدمات(پہلے کے واقعات ) کو اپنے دن اور رات اور مشاہدات پر منطبق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے ایسے واقعات بھی گزر چکے ہیں جو ان سے زیادہ سخت تھے، مگر وہ واقعات اس طرح سے اس انسان پر اثر انداز نہیں ہوئے ؛ یا پھر یہ انسان ان واقعات کی حقیقت سے ہی لا علم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متقی اہل علم و معرفت کے لیے جائز ہے کہ وہ قیامت کی نشانیوں کو حالات پر منطبق کرنے کے لیے اجتہاد سے کام لیں ۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابن صیاد کے بارے میں اجتہاد کیا تھا کہ یہی دجال ہے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر کوئی رد نہیں کیا۔