کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 15
لوگوں سے ان کی اہلیت کے مطابق گفتگو کریں
بہت سارے وہ لوگ جو قیامت کی نشانیوں کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ، وہ ان احادیث اور نشانیوں کو عام لوگوں میں بیان کرتے وقت سستی سے کام لیتے ہیں ۔ یاان لوگوں کے سامنے بیان کرتے وقت جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوتے ہیں جن کی عقلیں مسئلے کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کا علم حاصل کیا جاتا ہے، وہ لوگوں کے سامنے بیان نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہر صحیح روایت نشر کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ کم عقل والے لوگ کبھی کبھار برداشت نہیں کرسکتے۔ یا اس کے ساتھ برا تعامل کیا جاتا ہے، یا اس کلام کو اس کی صحیح منزلت پر نہیں پیش کیا جاتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں :
’’لوگوں سے ایسے حدیث بیان کرو جس کو وہ جانتے ہو، اور اسے چھوڑ دو جس کو نہ جانتے ہوں ، کیاتم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا جائے۔‘‘ [1]
ایک روایت میں ہے:
’’ اے لوگو! کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے ؟ لوگوں سے وہ حدیث بیان کرو جسے وہ جانتے ہوں اور اس حدیث کوچھوڑ دو جسے وہ جانتے نہیں ۔ ‘‘[2]
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقلیں نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لیے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہو جائیں گے، اس لیے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنی چاہیے۔ ‘‘[3]
****
[1] اسے بخاری نے روایت کیا۱۲۷۔ امام شاطبی نے اس پر تعلیق لگاتے ہوئے کہا ہے :اس حدیث میں حدیث کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے میں ایک ضابطہ کا پابند کیا ہے اس لیے کہ کبھی کوئی بات کسی قوم کے لیے مناسب ہوتی ہے، مگر دوسری قوم کے لیے مناسب نہیں ہوتی۔
[2] اسے امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں روایت کیا ہے۔
[3] اسے امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں روایت کیا ہے۔ باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع۔