کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 12
پس اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دینی مصلحتوں کی وجہ سے بعض غیبی امورکی خبر دیتے ہیں ۔ ان ہی میں سے قیامت کی نشانیاں بھی ہیں ، جو کہ مستقبل میں پیش آنے والا ایک غیبی علم ہے۔
رہا اسرائیلی روایات سے یا خواب سے قیامت کی نشانیوں کا علم حاصل کرنا، یا سیاسی واقعات کو بغیر کسی صحیح دلیل کے قیامت کی نشانیوں پر منطبق کرنا تو یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ جس نص (روایت ) سے استدلال کیا جارہاہو وہ روایت بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو، خواہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو،یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کی طرف۔
قیامت کی نشانیوں نے انتقامی سیاست ؛ تجارت اور کتابوں کی خرید وفروخت نے قارئین کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے بھی ایسی نئی راہیں کھولی ہیں جن میں کثرت کے ساتھ عجیب و غریب قسم کی شاذ اور جھوٹی روایات، اوہام اور افکار و خیالات کو جمع کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں جو کچھ میری نظر سے گزرا ہے، اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔ ایک مؤلف کہتا ہے:
’’ ایک اثر( حدیث) میں ہے ؛ جو کہ تیسری صدی ہجری میں لکھی جانے والی کتابوں کے ایک نادرو نایاب مخطوطہ میں ’’ دار الکتب الاسلامیۃ ‘‘ کے کتب خانہ میں استنبول میں موجود ہے۔ جناب ابو ہریرہ، ابن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت کیا گیا ہے، روایت میں ہے کہ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس روایت کو بیان کرنے میں خوف محسوس کرتے تھے۔ مگر جب انہیں اپنی موت قریب محسوس ہوئی، اور اپنا علم چھپانے کا احساس ہوا تو اپنے پاس موجود لوگوں سے کہنے لگے: ’’ میں ایسی خبر جانتا ہوں جو کہ آخری زمانے میں ہونے والی ((حروب)) [1] جنگوں سے متعلق ہے۔ کہنے لگے : ’’ ہمیں بتادیجئے ! اس میں کوئی حرج نہیں ، اللہ آپ کوجزائے خیر دے۔ آپ نے فرمایا:
’’ تیرہویں صدی ہجری کی دھائیوں میں ؛ اور انہوں نے پانچ یاچھ دھایاں گنی؛ (یعنی ۱۳۵۰ ھ یا ۱۳۶۰ ھ کے آس پاس ) مصر میں ایک شخص حاکم بنے گا، اس کی کنیت ناصر ہوگی، اسے عرب لوگ ’’ شجاع العرب ‘‘ کے نام سے پکاریں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہر جنگ میں ذلیل کریں گے۔ اور اس کی کوئی مدد
[1] یہاں پر جنگوں کے لیے عربی کا لفظ ’’ حروب ‘‘ استعمال کیا گیا ہے، جو کہ حرب کی جمع ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں حرب کی جمع حروب نہیں استعمال کی جاتی تھی۔ اس عربی عبارت میں غریب قسم کے الفاظ کا استعمال اور غریب ترکیب ہی محدثین کے ہاں جھوٹ کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ جس سے اس عبارت کا جھوٹا اور من گھڑت ہونا واضح ہے۔