کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 101
’’بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ چھوٹے لوگوں کے پاس علم تلاش کیا جائے گا۔‘‘(کتاب الزہد لابن المبارک)
جناب عبد اللہ بن مبارک سے پوچھا گیا : چھوٹے سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا: وہ لوگ جو اپنی رائے کے مطابق بات کہتے ہوں ( یعنی کوئی شرعی دلیل ان کے پاس نہ ہو، جو جی میں آئے ایسے کہتے جائیں ) یعنی وہ فتویٰ دینے میں علم میں پختگی اور دقت نہیں رکھتے ہوں گے، اور نہ ہی ان کے پاس کو ئی مستندشرعی دلیل ہوگی۔
یہ بھی کہا گیاہے کہ : ’’ چھوٹے لوگوں سے مراد اہل ِ بدعت ہیں ۔‘‘
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے :
’’لوگ اس وقت تک بھلائی اور خیر میں رہیں گے جب تک ان کے پاس علم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان کے بڑوں سے پہنچتا رہے گا؛ اور جب علم ان کے چھوٹے لوگوں کی طرف سے ان کے پاس پہنچے گا تو ان کی آراء مختلف ہوجائیں گی او روہ ہلاک ہوجائیں گے۔ ‘‘
مگر ہمارے اس زمانے میں الحمد للہ علم او راہل خیر موجود ہیں ۔ اگرچہ غور و فکر کرنے والے کے لیے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت میڈیا چھا گیاہے ؛ اور چند وہ چھوٹے لوگ جو کہ ابھی طالب علم ہیں چند مشہور مسائل کے علاوہ کسی مسئلہ میں پختگی اور گہری دانست نہیں رکھتے ؛ نہ ہی وہ علم یاد رکھنے والے ہیں او رنہ ہی فقہاء ہیں ، مگر لوگوں کے درمیان ان کا شہرہ ہے۔ اور لوگ بھی ان سے سوال و جواب کرنے لگے ہیں اور ان کے ہاں علم تلاش کرتے ہیں ۔ اگر ان کی جگہ بڑے علماء اور فقہاء لوگ میڈیاپر آتے، جیسے کہ ٹی وی چینلز، ریڈیو اور انٹر نیٹ ؛ تو لوگ ان سے سوال کرتے ( اور اپنے مسئلہ کا صحیح اور تشفی بخش جواب پاتے ) اور لوگ ان ہی کی طرف رجوع کرتے۔
یہ صرف غالب طور پر ایسا ہوتا ہے، ورنہ جیسے بوڑھا ہونا یا بڑی عمر کا ہونا علم کی نشانی نہیں ہے ؛ ایسے ہی چھوٹی عمر کا ہونا جاہل ہونے کی نشانی نہیں ہوسکتی۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بے شک علم عمر سے نہیں ہوتا۔ ‘‘ اور سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ بے شک علم عمر کے چھوٹا یا بڑا ہونے سے نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے علم کو رکھ دیتا ہے۔‘‘
اس لیے واجب یہ ہے جوانسان اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے (بطور عالم کے) پیش کرے اور لوگوں میں شہرت پائے، کہ وہ انسان اپنے آپ کوچھوٹے سے بڑا بنانے کے لیے کوشش کرے، وہ اس طرح کہ علم حاصل