کتاب: دنیا کا خاتمہ - صفحہ 100
اٹھانے پڑے جن کا امت کی تعلیم و تربیت میں بہت بڑا اثر تھا۔
۱۔ امام علامہ ابن باز رحمہ اللہ رئیس ہئیۃ کبار العلماء ( سعودی عرب ) کا انتقال
۲۔ علامہ محمد بن صالح ابن العثیمین کا انتقال
۳۔ محدث العصر علامہ ناصر الدین الالبانی کا انتقال
اور ان کے علاوہ دیگر اہم ترین علماء کا انتقال انہی سالوں میں ہوا جو کہ علم کے ستون تھے۔
جو کوئی اگر آج کل امت کے حالات پر غور کرے تو دیکھے گا کہ بہت سے نوجوان اور عام لوگ قرآن کو ترتیل کے ساتھ اور گاکر پڑھنے میں اور اپنی آواز کو خوبصورت بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں ۔ جب کہ علم ِ شریعت کی طلب اور اس میں پختگی حاصل کرنے سے غافل ہیں ۔اگر آپ ان میں سے کسی ایک سے طہارت یا سجدہ سہو کے متعلق سوال کریں گے تو اسے علم سے کورا پائیں گے۔
۵۹۔چھوٹے لوگوں کے پاس علم تلاش کرنا
عہد ِ نبوت سے لے کر آج تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ بڑے علماء و فقہاء کے پاس جاکر علم حاصل کرتے رہے ہیں ، قرب قیامت میں ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ علم حاصل کرنے کے لیے ایسے چھوٹے لوگوں کے پاس جائیں گے جو کم سمجھ رکھنے والے اور علم و فقہ میں نا پختہ ہوں گے۔ لوگ ان سے فتویٰ پوچھیں گے اور وہ انہیں فتویٰ دیں گے۔ پہلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ کتابیں پڑھنے والے زیادہ ہوجائیں گے، مگر ان کے سمجھنے والے علماء کم ہوں گے ؛ یہاں تک کہ علم، چھوٹے لوگوں کے پاس جا کر حاصل کیا جائے گا۔ وہ ایسے فتوے دیں گے کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
سیّدنا ابو امیہ جمحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: