کتاب: دعائیں اور شرعی دم - صفحہ 78
ایک درخت (زیتون کا) ایسا بھی پیدا کیا ہے جو طورِ سیناء میں تیل اور چکنائی لے کر بہت اُگتا ہے اور یہ کھانے والوں کے لیے سالن کا کام دیتا ہے۔ (اُس کے تیل یا اچار کو روٹی کے ساتھ کھاتے ہیں ۔) ‘‘ اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اس سے مراد زیتون کا درخت ہے، جو سلسلہ ہائے کوہِ طور اور اس کے قرب و جوار میں بحیرۂ روم کے ارد گرد کے علاقہ میں بکثرت پیدا ہوتا ہے اور نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ ‘‘ کعب الاحبار، حضرت قتادہ اور ابن زید رحمہم اللہ کہتے ہیں : ’’ زیتون بیت المقدس کا درخت ہے کہ جس کے متعلق سورۃ الاسراء میں اللہ نے … بَارَکْنَا حَوْلَہٗ … ’’ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے۔ ‘‘ فرمایا ہے۔ ‘‘[1] طب و حکمت کی کتب میں زیتون کے بے شمار فوائد ذکر ہوئے
[1] تفسیر ابن کثیر: ۴/۵۲۶۔