کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 8
ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ہزاروں سال بعد قبول ہوئی۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ دعا قبول کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت کار فرما ہے چاہے تو فوراً قبول کرلے، چاہے تو کم یا زیادہ عرصہ کے بعد قبول فرمائے۔
مذکورہ بالا ساری صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص دعا محض حاجت طلبی کا ذریعہ سمجھ کر مانگتا ہے اس کا معاملہ اس شخص کا سا ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں محض مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے حصہ لے رہا ہو۔اگر مال غنیمت مل گیا تو مطمئن اور خوش، نہ ملا تو مایوس، ناکام و نامراد جبکہ دعا کو عبادت سمجھ کر مانگنے والے شخص کا معاملہ جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے والے اس مؤمن کا سا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اگر فتح حاصل ہونے پر مال غنیمت مل گیا تو وہ اللہ کا انعام ہوگا اور اگر نہ ملا تب بھی جہا د میں شرکت کا اجرو ثواب بہرحال یقینی ہے۔
پس دعا کو عبادت سمجھ کر مانگنے والا کسی حال میں بھی مایوس اور ناکام نہیں ہوتا۔اگر اس کی مطلوبہ حاجت فوراً پوری ہوجائے تو یہ سراسر اللہ کا انعام اور فضل ہے اور اگر مطلوبہ حاجت پوری نہ ہو تب بھی اس کی محنت ایک بڑے اور یقینی فائدے سے محروم نہیں رہتی اور وہ ہے بطور عبادت آخرت میں اس کا اجرو ثواب جس کا احساس انسان کو دنیا کی بجائے آخرت میں کہیں زیادہ ہوگا۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ دعا چونکہ عبادت ہے اور ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کے لائق ہے لہٰذا دعا صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنی چاہئے۔دعا کرتے وقت کسی نبی‘ ولی‘یا بزرگ کو وسیلہ بنانا یا ان سے دعا کی درخواست کرنا ان سے مشکل کشائی، حاجت روائی یا کسی قسم کی مدد طلب کرنا شرک فی العبادات ہے۔جس سے ہر مسلمان کو بچنا چاہئے البتہ کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے۔
دعا بہترین ہدیہ ہے:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دینی خدمات پر خوش ہوتے تو انہیں اسی متاع گراں بہا…دعا… کا ہدیہ عنایت فرماتے۔جنگ تبوک کے موقع پر دوران سفر سامان خورد و نوش ختم ہوگیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سامان خورد و نوش سے لدے ہوئے بے شمار اونٹ مہیاکر دئیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکراپنے دونوں ہاتھ آسمانوں کی طرف اٹھا کر تین دفعہ یہ دعا فرمائی۔’’یا اللہ! میں عثمان سے راضی ہوں ‘تو بھی عثمان سے راضی ہوجا۔‘‘پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا’’تم بھی