کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 7
زمزم پینے سے قبل دعائیں، سعی شروع کرتے وقت اور دوران سعی دعائیں، سعی کے اختتام پر مروہ پر خصوصی دعائیں، منیٰ میں پہنچ کر تکبیر، تہلیل تلبیہ اور دعائیں، میدان عرفات میں ادائیگی نماز کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک کھڑے ہو کر مسلسل توبہ استغفار اور ادعیہ و اذکار، عرفات سے واپسی پرمزدلفہ میں نماز فجر سے لے کر اجالا ہونے تک کھڑے ہو کر ادعیہ و اذکار، رمی جمار کے بعد کی دعائیں، قربانی کے وقت کی دعا، منیٰ میں مسلسل تین دن تک قیام کے دوران ادعیہ و اذکار، مناسک حج ادا کرنے کے بعد گھر واپس پہنچنے تک حاجی کو دعائیں مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کے عین مطابق دعا ہی تمام عبادتوں کی روح اور مغز ہے۔ یہاں قبولیت دعا کے بارے میں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ دعا کو محض اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورتیں اور حاجتیں پوری کروانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری مطلوبہ ضرورتیں اور حاجتیں پوری نہیں ہو رہیں تو نیم دلی سے دعائیں مانگنے لگتے ہیں یا مایوس ہو کر دعا مانگنا تر ک کر دیتے ہیں اور بعض لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اللہ سے گلہ شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال دراصل دعا کے صحیح اسلامی تصور سے لاعلمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ قبولیت دعا کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مختلف صورتیں بتلائی ہیں۔ 1 یا تو انسان کی مطلوبہ حاجت پوری کر دی جاتی ہے۔ 2 یا دعا کے برابر کوئی آنے والی مصیبت ٹال دی جاتی ہے۔ 3 یا اس کا اجر و ثواب آخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔(مسند احمد) دعا قبول ہونے کی صورت میں بھی دو امکان موجود ہیں اولاً دعا فوراً اسی وقت قبول ہوجائے جیسا کہ حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے تین افراد کا واقعہ بیان فرمایا جو دوران سفر طوفان بادوباراں سے پناہ لینے کے لئے ایک غار میں بند ہوگئے۔انہوں نے اللہ سے دعا مانگی جو اسی وقت قبول ہوگئی۔ ثانیاً اللہ کی مصلحت اور حکمت کے مطابق دعا تھوڑے یا زیادہ عرصے کے بعد قبول ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ ﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃ وَیُزَکِّیْھِمْ۔﴾(129:2) ’’اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیج جو انہیں تیری آیات سنائے‘ انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔‘‘حضرت