کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 25
ان شرائط کے مطابق:
اولاً :انسان کو سب سے پہلے اپنی گزشتہ زندگی کے گناہوں(اللہ کی نافرمانی، شرک یا کفر)سے سچی توبہ کرنی چاہئے۔
ثالثاً:کتاب و سنت کے مطابق اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہئے اور آخر میں نیکی کے راستے پر استقامت سے جمے رہنا چاہئے۔ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے معافی اور بخشش کا پختہ وعدہ فرمایا ہے۔ حدیث پاک ہے اللہ پاک فرماتا ہے’’اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں اور تو مجھ سے استغفار کرے تو میں تجھے بخش دوں گا۔اے ابن آدم! اگر تو میرے پاس روئے زمین کے برابر گناہ لے کر آئے اور مجھے اس حال میں ملے کہ میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تومیں روئے زمین کے برابر تجھے مغفرت عطا کروں گا۔‘‘(احمد، ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے’’وہ شخص خوش قسمت ہے جس کے نامۂ اعمال میں کثرت سے استغفار پایا گیا۔‘‘(ابن ماجہ، نسائی)
گناہوں کی معافی کے علاوہ استغفار دنیا میں کتنی نعمتوں اور برکتوں کا باعث ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی تو انہوں نے ہدایت کی ’’اللہ سے استغفار کرو۔‘‘ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہیں، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہے۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ہر ایک کو یہی جواب دیتے’’استغفار کرو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ آپ نے سب لوگوں کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتلایا ہے۔‘‘ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے جواب میں سورۃ نوح کی یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا،یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا، وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھَارًا﴾(71: 10۔12)
’’حضرت نوح علیہ السلام نے(اپنی قوم سے)کہا’’اپنے رب سے استغفار کروبیشک وہ بڑا بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔‘‘(کشاف بحوالہ تفہیم القرآن)
غیر مسنون ادعیہ و اذکار